دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
by جگر مراد آبادی

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد

میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد

چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمۂ بے ساز و صدا یاد

جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرم نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد

کیا جانئے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد

مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد

ہاں ہاں تجھے کیا کام مری شدت غم سے
ہاں ہاں نہیں مجھ کو ترے دامن کی ہوا یاد

میں ترک رہ و رسم جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تری لغزش پا یاد

کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse