Jump to content

دنیا کا پرانا طلسم

From Wikisource
دنیا کا پرانا طلسم
by ناصر نذیر فراق دہلوی
319508دنیا کا پرانا طلسمناصر نذیر فراق دہلوی

مری ہستی فضائے حیرت آباد تمنا ہے
جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے

انسان نے اس زمانہ میں اپنی حکمت اور سائنس کے ذریعہ ایسے ایسے مصالحہ اور سامان پیدا کئے ہیں کہ پرندوں کی طرح ہوا میں اڑنے لگا۔ ہزاروں کوس کے پلہ پر منٹ بھر میں اس کی آواز جانے لگی۔ مگر اپنے غرور اور گھمنڈ میں اس کے لئے یہ نامناسب ہے کہ دہریہ بن جائے یا اسے یہ خبط ہو جائے کہ میں نے خدا کے بھید اور اسرار پالئے۔ انہیں بھی اور ہم صوفیوں کو بھی یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ ہر تنزل میں ترقی اور ہر ترقی میں تنزل موجود ہے۔ ناچیز انسان کیسا ہی حکیم اور فلاسفر ہو جائے مگر خدا کے اسرار کو تو وہ کب پا سکتا ہے۔ وہ اپنے بھائی بنی آدم کی کاریگری کی تہ کو بھی ابھی نہیں پہنچا ہے۔ جب سے اسٹیم اور ریلیں نکلیں، دنیا کی ساری آبادیاں، کیا شہر کیا گاؤں، کیا جنگل کیا پہاڑ گھر انگنائی ہو گئے۔

سیاح جو اگلے زمانے میں تبرک سمجھے جاتے تھے اورجن کی توقیر بادشاہ کرتے تھے، آج انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ ملک مصر اور اس کا دار الملک قاہرہ اب کسی طر ف سے دور نہیں سمجھا جاتا ہے۔ قبۃ الہرمان کو یورپ اور ہندوستان اور جاپان کے سیاح دیکھ آئے ا ور دیکھتے رہتے ہیں۔ مگرآج کوئی عاقل، کوئی دانش مند ٹھیک کہہ سکتا ہے کہ ان کے بنانے کی علت یہی تھی جو یورپ کے دانا اور ہوشیار بتاتے ہیں۔ ان میں سے جو لاشیں نکالی گئی ہیں، ان کی نسبت جو رائے زنی کی گئی ہے، اسے صحیح کیونکر سمجھا جا سکتا ہے۔ جبکہ آج تک کسی علمی طاقت نے یہ نہ سمجھایا کہ لاشوں پر اور ان کے کفن پر کیا مصالحہ لگایا گیا ہے۔ اگر اس مصالحہ کے اجزاء معلوم ہو جاتے تو ہم بھی اسے تیار کرتے اور اس سے بہت کام لیتے۔ ان قبوں کی نسبت گو اس زمانے میں بہت کچھ چھان بین کی گئی ہے، مگر مسلمان بھی جب کبھی زندہ قوم کہلانے کے مستحق تھے، توان کی تحقیق سے غافل نہیں رہے۔

محاضرات ابن راغب میں ان قبوں کے بہت سے عجیب و غریب حال لکھے ہیں۔ آثار البلاد میں ان قبوں کے انوکھے حال مرقوم ہیں۔ ربیع الابرار میں صاحب کشاف نے بہت سی خامہ فرسائی کی ہے۔ صاحب بحر السعادات محمد بن محمدابراہیم الملقب حاجی تاج الدین ہراس الگازروفی اپنی تصنیف میں فرماتے ہیں، قبۃ الہرمان کے معاملہ میں ذی علم سیاح اور حکیم اور دانش مندوں نے اتنا کچھ لکھا ہے کہ اگر میں اسے بیان کروں تو موٹی ساری ایک کتاب تیار ہو جائے۔ یہ قبے جالینوس سے ڈھائی ہزار برس پہلے موجود تھے۔ جب حکیم جالینوس نے مصر میں آکر ان قبوں کو دیکھاتو اس کی عقل چکرا گئی اور وہ اس حکمت و لیاقت پر ان کے راز کو نہ سمجھ سکا مگر میں ان باتوں کو سند نہیں گردانتا۔ البتہ میرے استاد، میرے شیخ بلکہ شیخ الاسلام، استادو مقتدائے اہل علم شرقاً و غرباً، براً و بحراً شیخ مجدد الملت والدین ابی طاہر محمد بن یعقوب الفیروزآبادی اعلیٰ اللہ تعالیٰ شانہ نے جو اپنی زبان مبارک سے قبۃ الہرمان کے بارے میں ارشاد کیا ہے، اسے میں نے تمیماً و تبرکاً یاد کرلیا ہے، اور یہاں اسے بیان کرتا ہوں۔

حضرت مجدد الدین فیروز آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مصر ایسی جگہ ہے، جسے خدا نے شہر سمجھا اور مصر کے لقب سے اسے یاد فرمایا۔ ورنہ دنیا کے تمام شہروں کو خواہ وہ کیسے ہی بڑے ہوں، قریہ کہا ہے۔ مصر کسی زمانہ میں چالیس کوس لمبا اور چالیس کوس چوڑا آباد تھا اوراس میں اَن گنت آدمی رہتے تھے۔ و کذالک مکنا لیوسف فی الارض سے خدا کی مراد مصر سے ہے۔ جس سے حضرت ادریس علیہ السلام کو بذریعہ وحی معلوم ہوا کہ ہمارے بعد دنیا میں ایک طوفان آنے والا ہے، اور وہ زمین کی ہر چیز کو برباد کر دےگا، تو آپ نے اپنی حکمت نبوت سے یہ قبتے بنوائے اورہر قبہ میں جو چیزیں آپ کو رکھنی منظور تھیں، رکھ کر ان پر طلسمی قفل لگا دیے۔ یہ قبے صورت میں گول اور اوپر سے نکیلے ہیں۔ ان کے قد اتنے لمبے ہیں کہ دیکھنے والا اپنی پگڑی تھام کر دیکھتا ہے اور اسے گمان ہوتا ہے کہ ان کی چوٹیاں ابر سے لگی ہوئی ہیں۔ ان میں کوئی دروازہ یا اندر جانے کے لئے رستہ نہیں ہے۔

مصر کے رہنے والوں کا یہ اعتقاد ہے کہ ان قبوں میں سونے چاندی اور جواہر کے خزانہ بھرے پڑے ہیں۔ جس شخص کو گنج نامہ مل جاتا ہے تو اس کی مدد سے بہت سا مال قبہ کھول کر نکال لاتا ہے۔ چنانچہ اس خیال میں ہزاروں آدمی قبوں کے چوگرد پھرا کرتے ہیں۔ اور ان لوگوں کو اہل مصر اپنی اصطلاح میں طالب کہتے ہیں۔ جو عورت مرد کاہل وجود اور مڈھور ہوتے ہیں، وہ اپنی ساری زندگی اسی خبط میں کاٹ دیتے ہیں کہ آج ہمیں کوئی بیجک مل جائےگا، اور ہم قبہ میں سے دولت نکال کر امیر کبیر بن جائیں گے اور ساری عمر بے فکری سے کٹے گی۔

خلیفہ ہارون الرشید عباسی جس وقت مصر میں پہنچا، تو قبوں کو دیکھ کر اور ان کی بابت عجیب و غریب داستانیں سن کر حیران ہو گیا اور اسے اشتیاق ہوا کہ میں قبوں کے اندرونی اسرار سے واقف ہوں۔ اس نے مصر میں قیام کردیا اور اس نے قاہرہ اور بغداد کے استاد کاریگروں کو اکٹھا کر کے ایک قبّہ کی نسبت حکم دیا کہ اس میں اندر جانے کے لئے راستہ بناؤ۔ کاریگروں نے پہلے معمولی لوہے کی چھینی ٹانکیوں سے کام لینا چاہا، مگر ان کے منہ بھر گئے تو فولاد کے اوزار بنوائے گئے، مگر وہ بھی گر گئے، جھڑ گئے اور قبہ کا پتھر ٹوٹنا کیسا اس پر خط بھی نہ پڑا اور کاریگروں نے خلیفہ سے کہہ دیا، امیر المومنین یہ کام ہم لوگوں سے نہیں ہو سکتا۔

خلیفہ نے اپنے مشیروں سے، جن میں بڑے بڑے عاقل اور حکیم تھے، مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا، فی الواقع یہ تدبیر ٹھیک نہیں اتری۔ ہماری رائے یہ ہے کہ آلات کے منہ پر ہیرا جڑا جائے اور کام لیا جائے۔ چنانچہ اس حکمت نے اپنا اثر دکھایا۔ مگر کئی کروڑ کاالماس خرچ ہو گیا اور قبہ کے اندر اتناسوراخ بن گیا کہ آدمی سکڑ سمٹ کر اندر چلا جائے اور سوراخ ہونے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قبہ اندر سے خالی ہے مگر اندھیرا بہت ہے۔ ڈر کے مارے اس میں کوئی گھستانہ تھا۔ خلیفہ کی دھمکی دینے سے دو ایک شخص اندر گئے اور صحیح سلامت نکل کر انہوں نے جو کچھ قبہ میں دیکھا تھا، وہ بیان کیا۔ خلیفہ ان کے بیان کو سن کر بیتاب ہو گیا اور اس نے خود اندر جانے کا ارادہ کیا۔ خیر خواہوں نے اسے روکا مگر وہ کب رکنے والا تھا۔ سوراخ میں گھس گیا اور اس کے پیچھے کئی جاں نثار بھی داخل ہو گئے۔

جب خلیفہ چند قدم آگے گیا تو اس نے اپنے تئیں ایک ایسے مکان میں پایا جس کے کمرے کی چھت نہ تھی۔ کمرہ سنگ مرمر کا تھا، اور اس میں دن نکل رہاتھا۔ مکان کے بیچ میں سنگ مرمر کی ایک خوبصورت قبربنی ہوئی تھی۔ قبر کے تعویذ پر سونے کی کشتی رکھی تھی، جس میں ہیرے بھرے ہوئے تھے۔ قبر کے سرہانے جو دیوار تھی، اس میں تین گز کی اونچائی پر پتھر کے اندر ابھری ہوئی گلکاری ہورہی تھی اور گلکاری کے حلقہ میں عورت کا ایک کلہ بنا ہوا تھا کہ حسن جمال میں حور و پری کے چہرے کو مات دیتا تھا۔ رنگ رخسار کی تازگی، بھوؤں کے بالوں کی باریکی، آنکھوں کی دل فریبی، ہونٹوں کی مسکراہٹ، زلفوں کے پیچ و تاب کہتے تھے کہ دیوار میں غرفہ ہے اور اس غرفہ میں سے کسی زندہ پری نے اپنا پیارا مکھڑا سیر کے لئے نکال رکھا ہے۔

مگر جب خلیفہ نے اپنے ہاتھ کی چھڑی سے اسے ٹھوکا دیا تو معلوم ہوا کہ پتھر کا بنا ہوا ہے۔ اس کلہ میں یہ اثر تھا کہ جو اسے دیکھتا تھا، اس کے دل میں سودائے عشق پیدا ہو جاتا تھا کہ میں اس تصویر کو کس طرح ہاتھ لگاؤں۔ خلیفہ یہ تماشہ دیکھ کر قبّہ میں سے نکلا توہیروں کی کشتی کو ساتھ لایا، اورہیروں کو انکوانے کے لئے بھیجا تو جوہریوں نے ان کی قیمت اتنی ہی بتائی، جتنے کروڑ سوراخ کے بنانے میں خلیفہ کے خرچ ہوئے تھے۔ دوسرے دن اس کام کے مہتمم نے آکر خلیفہ کے حضور میں عرض کی کہ یا امیر المومنین یہ کام ابھی جاری رہےگا۔ خلیفہ نے کہا، مجھے ایک فضول کام کے پیچھے اپنے خزانے خالی کرنے منظورنہیں۔ آج سے یہ کام بند کیا جائے۔

حضرت مجدد الدین موصوف فرماتے ہیں، ہم بھی مدت تک مصر میں رہے ہیں۔ ہرمان مصر کو اور خصوصاً اس قبہ کو دیکھا ہے جس میں وہ سوراخ ہے۔ ہمارے ساتھ کئی دوست تھے۔ جب ہم پھنس کر بہ مشکل اس سوراخ سے گزر کر قبہ کے اندر پہنچے اور اس سنگ مر مر کے بے چھت کمرے میں داخل ہوئے، ہمیں حیرت تھی کہ قبہ سب طرف سے بند ہے، یہ دن یہاں کیونکر ہورہا ہے۔ مگر یہ راز مطلق سمجھ میں نہ آیا۔ قبر کے دیکھنے سے بڑی عبرت ہوئی۔ سامنے نگاہ گئی تو وہ صورت پری جمال تقویٰ شکن کھل کھلا رہی تھی۔ ہمارے رفیقوں میں سے ایک شخص نے اس صورت کو بہت غور سے دیکھا۔ اور جب وہ صورت اسے زیادہ پیاری معلوم ہوئی تو لپک کر اس کے پاس گیا اور اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ میں نے منع کیا کہ خبردار اسے نہ چھونا مگر اس نادان نے نہ مانا اور یہ کہہ کر کہ اس کے کان کیسے اچھے ہیں، مورت کے کان میں انگلی ڈالی۔

مورت کے کان میں بظاہر سوراخ برائے نام تھا، مگر خدا جانے کیا بات تھی، جب ہمارے دوست نے انگلی اس کے کان پر سے سرکائی تو دوسرے ہاتھ سے انگلی پکڑ کر کہنے لگا، میں مر گیا۔ اس مورت کے کان میں بچھو بیٹھا تھا۔ اس نے مجھے کاٹ لیا۔ جلن کے مارے وہ تڑپتا تھا۔ ہم لوگ بہت دشواری سے اسے گھر لے کر پہنچے۔ حکیموں کو لے جاکر دکھایا۔ حکیموں نے قسم قسم کی ٹھنڈی ٹھنڈی دوائیں کھلائیں اور لگائیں۔ تریاق بھی چٹائے مگر وہ نہ بچا۔ اور صبح ہوتے ہوتے ملک عدم کو سدھار گیا اور ہم اسے اول منزل پہنچا کر آئے تو چپ بیٹھے تھے۔ اس میں ہمارا ملنے والا نان بائی آ گیا جو شیراز کا رہنے والا تھا اور ہمیں ہم وطن سمجھ کر بہت محبت کرتا تھا۔

اس نے یہ قصہ سنا تو کہنے لگا میں قبوں کے طلسموں کو بہت دنوں سے جانتا ہوں۔ انہیں کی بدولت میری جیتی جاگتی ایک آنکھ گئی۔ شیراز سے آکر میں نے یہاں قاہرہ میں کھانے کی دوکان کھولی، اور تھوڑے دن میں میرا کام خاصا چل گیا۔ چار خچر میں نے مول لے لئے اور جنگل سے ایندھن خچروں پر نوکر لانے لگا۔ ایک روزمیں اپنی دوکان پر بیٹھا ہوا تھا، جو ایک مصری نے آکر مجھ سے کہا، آغا تمہارے پاس کے خچر ہیں۔ میں نے کہا چار۔ اس نے کہا مجھے ضرورت تو بہت سے خچروں کی ہے مگر خیر دو تین پھیرے کر لینا۔ مجھے فلانی جگہ سے کچھ سامان لانا ہے۔ فی پھیرہ اتنے دام کرایہ کے دوں گا۔ خچر لے چلو۔ چونکہ کرایہ معقول تھا، میں راضی ہو گیا۔ مصری نے کہا، میں آج ہی دن کے تین بجے آؤں گا اور خچروں کو اور تمہیں لے جاؤں گا۔ لو یہ سائی کے پیسہ ہیں۔ بس صبح تک ہم سامان لے کر شہر کو پلٹ آئیں گے۔

میں نے سائی لے لی اور مصری چلا گیا، اور ٹھیک اسی وقت آیا، جس وقت کے لئے کہہ گیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں سوت کا ایک مضبوط رسہ تھا اور ایک توبرہ، ایک لوہے کا پھاوڑہ۔ میرے نوکر نے مجھ سے کہا، آپ دوکان پر رہئے میں خچر لے جاؤں گا۔ مگر نے نوکر کا اعتبار نہ کیا۔ اور میں ہی خچر پہنچانے کے لئے مستعد ہو گیا۔ جھٹ پٹ پالان خچروں پر رکھ کر خالی گونیں ان پر ڈالیں۔ مصری نے ایک گون میں توبرہ اور رسی اورپھاوڑہ رکھ دیا۔ ایک خچر پر میں اور دوسرے پر مصری سوار ہوا۔ اور دو خچرو ں کو آگے آگے کر کے قاہرہ سے چل دیے۔ مصری مجھے قبۃ الہرمان کے نواح میں لے گیا۔

شام ہوچلی تھی۔ آفتاب زرد ہوکر مغرب کی طرف جھک رہا تھا۔ چھوٹے بڑے قبوں کی پرچھائیاں لمبی ہوکر دور تک چلی گئی تھیں۔ بہت سے قبوں کے بیچ میں اپنے تئیں دیکھ کر مجھے ڈر معلوم ہونے لگا اورمیں نے غور سے دیکھا کہ خچروں کے اوپر بھی ہیبت سی چھا گئی تھی۔ وہ زور زور سے سانس لیتے تھے اور بے چین ہورہے تھے، جو ایک بہت بڑے قبے کے نیچے پہنچ کر مصری نے کہا، خچر روک لو۔ میں نے خچروں سے کہا بس بیٹا بس اور چاروں خچر فوراً ٹھہر گئے۔ قبہ کے نیچے ایک اندارا کنواں تھا، جس کی من بہت ہی خوش نما پتھروں کی بنی ہوئی تھی۔ مصری خچر پر سے اتر پڑا۔ اور میں بھی خچر پر سے اتر آیا۔ مصری کنوئیں کی من پر جا بیٹھا اور اس نے مجھ سے کہا۔ جو سامان میں لایا ہوں وہ گون میں سے نکال لاؤ۔ میں اپنے دل میں حیران تھا اور یہ سوچتا تھا کہ کیا معاملہ ہے۔ اس شخص نے جس اسباب کے لئے کرایہ کئے تھے وہ تو یہاں دکھائی نہیں دیتا ہے۔ خدا خیر کرے۔

جب میں وہ چیزیں کنوئیں پر لے کر پہنچا تو میں نے دیکھا کنواں بہت گہرا ہے، اور اس کا سفید پانی پارہ کی طرح چمک رہا ہے۔ مصری نے اپنی جیب میں سے ایک تعویذ نکال کر کنوئیں کے اندر ڈال دیا۔ تعویذ کا کنوئیں کے اندر جانا، اور اس کے پانی کا سانپ کی طرح لہرا کر اوپر آنا۔ میں سمجھا کہ یہ پانی مجھے بھی ڈبو دےگا۔ بارے گھٹنوں تک پانی پہنچ کر کم ہونے لگا اور کم ہوتے ہوتے کنوئیں کی تہ میں غائب ہو گیا۔ مصری کا چہرہ خوشی کے مارے لال ہو گیا۔ اور اس نے پھاوڑہ کنوئیں کے اندر پھینک دیا اور سوت کی رسی میں توبرہ باندھ کر اور اس کا سرا میرے ہاتھ میں دے کر توبرہ میں اپنا ایک پاؤں رکھ کر بے دھڑک کنوئیں میں اتر گیا اور کنوئیں کے منہ میں سے کچھ چیز کھود کر توبرہ میں بھری اور مجھ سے کہا کھینچ لو۔ جب میں نے ڈول کی طرح توبرہ اوپر کھینچ لیا تو میں نے دیکھا خالص سونے کا برادہ تھا۔ یہاں تک کہ خچروں کی چاروں گونیں سونے کے برادہ سے میں نے ٹھونس ٹھونس کر بھریں اور ان کا منہ سی دیا۔ آخر میں مصری نے ایک توبرہ مچامچ سونے کے برادہ کا بھر کر مجھے اور دیا اور اندر سے چلاکر کہا، آغا یہ تمہارا حصہ ہے۔ اس بات کو سن کر میری باچھیں کھل گئیں، اور خوشی کے مارے میرے بدن میں میرے کپڑے تنگ ہو گئے۔

جس طرح رسی کے سہارے سے مصری کنوئیں میں گیا تھا اسی طرح وہ اوپر چڑھ آیا۔ اور اس نے اپنی جیب سے دوسرا تعویذ نکال کر کنوئیں میں ڈالا۔ تعویذ پڑتے ہی ایک چھنا کے کی آواز کنوئیں میں سے آئی اور کنواں اگلی طرح پانی سے بھر گیا۔ اب ہم دونوں نے بڑی خوشی اور اطمینان سے گونیں خچروں پر لادیں۔ میں نے اپنے حصہ کا سونا اپنی چادر کے پلہ میں باندھ کر احتیاط سے اپنے خچر پر رکھ لیا۔ اور ہم دونوں خچروں پر سوار ہوکر چاروں خچروں کو ہنکاتے ہوئے شہر کی طرف چل دیے۔ رات ہو چکی تھی اور اندھیرے گھپ میں کچھ نہ دکھائی دیتا تھا۔ خچر قدم تیز بڑھائے چلے جاتے تھے، کیونکہ دانہ کا وقت گزر لیا تھا۔ میں اپنے دل میں خوش ہو رہا تھا کہ خدا نے مفت میں اتنا مال دلوا دیا۔ اب میں یہ ذلیل پیشہ چھوڑ دوں گا اور شیراز جاکر چین سے زندگی بسر کروں گا۔

اس خیال میں ڈوبا ہوا تھا اور آسمان کے تاروں کو گھور رہا تھا، جو یکایک مصری نے کہا، آغا! ہم تو بہت رات گئے مصرمیں پہنچیں گے۔ اور اس مال کے رکھنے میں گھنٹوں کی دیر لگے گی۔ مناسب ہے کہ کچھ کھانا کھالیں۔ میں نے کہا جناب عالی! اس جنگل میں کھانا کہاں سے آیا۔ مصری نے کہا، نہیں نہیں، کھانا موجود ہے۔ میں احتیاطاً ساتھ لیتا آیا تھا۔ لو ذرا اپنے خچر کو میرے پاس لے آؤ۔ جب میرا خچر اس کے خچر کے پاس پہنچ گیا تو مصری نے شیرمال کا چھوٹا سا ایک گردہ میرے حوالہ کیا۔ میں نے سلام کر کے لے لیا، اور ٹکڑا توڑ کر کھایا تو معلوم ہوا کہ بہت نرم اور مزہ دار ہے۔ میں نے ابھی دو چار ہی نوالے کھائے ہوں گے جو میرا سر چکرایا اورمیں خچر پر سے زمین کی طرف جھکا۔ مگر مجھے زمین تک پہنچنے کی خبر نہیں۔ البتہ جب مجھے ہوش ہوا تو میں نے دیکھا صبح کا وقت ہے۔ نہ خچر ہیں نہ مصری ہیں۔ اور میں ننگا دھڑنگا ٹھنڈی ٹھنڈی زمین پر پڑا ہوں اور مجھے مردہ سمجھ کر کوے نے میری ایک آنکھ کھا لی ہے اور دوسری میں ٹھونگیں مار رہا ہے۔

میں تڑپ کر اٹھ بیٹھا اور ننگا ہی شہر کی طرف چل دیا۔ لوگ مجھے دیوانہ سمجھے۔ ہزار خرابی اور دقت کے ساگھ گھر پہنچا۔ کپڑے پہنے۔ دو تین دن میں جاکر میرے ہوش و حواس ٹھکانے ہوئے اور میں سمجھا کہ اس چالاک نے مجھے شیر مال میں داروئے بے ہوشی دی۔ اور مجھے جنگل میں ڈال کر اس لئے چل دیا کہ میں اس غیبی دولت کا حال کسی سے نہ کہہ سکوں۔ اس بات کو کئی برس گزر لئے ہیں۔ میں ہر وقت جستجو میں رہتا ہوں، مگر آج تک نہ وہ مصری ملا۔ نہ میرے خچر ہی کہیں دکھائی دیے۔ دولت تو گئی بھاڑ چولھے میں، کئی سو روپے لے کے خچر بھی گئے اور ایک آنکھ بھی گئی۔ جب کبھی میرے دل کو وحشت ہوتی ہے تو قبۃ الہرمان کو جاتا ہوں، مگر نہ وہ قبہ مجھے ملتا ہے نہ وہ اندارا ہی دکھائی دیتا ہے۔

اس کے بعد شیخ نے فرمایا کہ ہم نے اس سے بھی زیادہ عجیب قصہ قبۃ الہرمان کے متعلق قاہرہ میں یہ سنا کہ اسلامی حکومت سے پہلے اس شہر میں دو بھائی رہتے تھے جو بہت ہی مفلس اور محتاج تھے۔ تابڑ توڑ ان پر فاقے ہوتے تھے اور وہ پڑے سسکا کرتے تھے۔ ایک رات کو وہ فاقہ میں بے ہوش ہو گئے، تو انہوں نے خواب میں دیکھا، ایک شخص بزرگ صورت کہتا ہے، قبۃ الہرمان میں فلانے مقام میں جانا۔ وہاں تمہیں ایک کاغذ ملےگا، اسے اٹھا لینا، جو اس پر لکھا ہوا ہو، تم دونوں عمل کرنا۔ خدا چاہے تو دونوں نہال ہو جاؤگے۔ مگر اتفاق اور میل جول سے رہنا۔ صبح اٹھ کر دونوں بھائیوں نے اپنا اپنا خواب سنایااور انہیں یقین ہو گیا کہ یہ غیبی اشارہ ہے۔ ہرمان کو چل دیے اور خاص اسی مقام پر جا کھڑے ہوئے، جس کا پتہ ہاتف نے خواب میں دیا تھا۔ ادھر ادھر دیکھا تو چھوٹا سا کاغذ کا پرزہ زمین پر پڑا ہوا، ہو اسے ہل رہا ہے۔ دونوں بھائیوں نے جھٹ اسے اٹھا لیا۔ اس میں لکھا تھا،

اے طالبو! تم جس قبہ کے نیچے کھڑے ہو، اس کے پچھم کی طرف سات قدم گن کر زمین کھودو، تمہیں وہاں سے دو چیزیں عجیب و غریب ملیں گی، ان میں یہ یہ اعجاز ہوں گے۔ تمہیں ان سے بہت فائدہ پہنچےگا اور تم بڑے امیر ہوجاؤگے۔ کاغذ کو پڑھ کر ایک بھائی وہیں بیٹھ گیا اور ایک بھائی شہر کو گیا، اور کدال پھاوڑہ اور ایک ٹوکری لے آیا۔ سات قدم گن کر اس مقام کو کھودنا شروع کیا۔ دو گز نیچے لوہے کا بہت بڑا صندوق دکھائی دیا، جس میں مضبوط قفل لگا ہوا تھا۔ خدا جانے کب سے صندوق زمین میں دفن تھا مگر زنگ کا نام تک نہ تھا۔ انہوں نے قفل کو ہاتھ لگایا تو بے کنجی کے قفل کھل گیا۔ صندوق کے اندر ایک چھوٹا صندوقچہ رکھا ہوا تھا۔ صندوقچہ میں قفل تھا۔ اور قفل کی کنجی صندوق کے اندر رکھی تھی۔ کنجی سے قفل کھول کر صندوقچہ کا ڈھکنا اٹھایا تو دیکھا، اس میں کسی دھات کا بنا ہوا ایک گلاس ہے، جس میں اندازاً آدھ سیر پانی آسکتا تھا اور سونے کی موٹی سی ایک ٹکیہ رکھی ہے، جس کا وزن بھی کوئی آدھ سیر ہی ہوگا۔

ان دونوں چیزوں کو دیکھ کر دونوں بھائی پھولے نہ سمائے اور انہیں صندوقچہ میں سے نکال رومال میں باندھ لیا۔ صندوقچہ میں قفل لگا کر کنجی جہاں رکھی تھی، وہیں رکھ دی۔ صندوق کو بند کیا۔ اس کنڈہ میں قفل ڈالا ہی تھا، جو آپ ہی آپ قفل لگ گیا۔ صندوق کے اوپر مٹی ڈال کر جگہ برابر کر دی اوربھاگا بھاگ شہر کو آئے۔ کاغذ کو پھاڑ کر پھینک دیا، تاکہ کسی اور کے ہاتھ نہ جائے۔ بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی سے کہا کہ اس ٹکیہ کا تیا پانچہ بازار میں ہی کرتے چلو۔ چھوٹے نے کہا ٹھیک ہے۔ صراف کی دوکان پر پہنچ کر ٹکیہ دکھائی۔ صراف نے کہا واہ واہ! یہ طلائے شدادی آپ کے ہاتھ کہاں سے لگا۔ ایسا سونا دکھائی بھی نہیں دیتا ہے۔ انہو ں نے کہا ہمارے بزرگوں کے وقت سے ہمارے پاس چلا آتا ہے۔ ضرورت کے مارے بیچنے آئے ہیں۔ تمہیں لینا ہے تو لو، نہیں کسی اور صراف کو دے دیں گے۔

صراف نے کہا، نہیں جناب! میں ڈیوڑھی قیمت دینے کو تیار ہوں اور فوراً روپیہ حساب لگا کر ان کے حوالہ کئے اور ٹکیہ لے لی۔ دونوں بھائی خوش خوش گھر آئے۔ روپیہ کی تھیلی کھولی تو اس میں سونے کی ٹکیہ بھی نکلی۔ ایک بھائی نے دوسرے سے کہا تو نے یہ کیا غضب کیا کہ ٹکیہ صراف کی آنکھ بچا کر اٹھالی۔ اب صراف کوتوالی کے سپاہی لے کر آئےگا اور ہمیں تمہیں پکڑوائےگا۔ دوسرے نے کہا آپ کیا کہتے ہیں۔ صراف نے سونے کی ٹکیہ بڑی احتیاط سے اپنے صندوقچہ میں رکھ لی تھی۔ نہ میں لایا نہ میں لا سکتا تھا۔ نہ میرے دل میں بے ایمانی کا خطرہ تھا۔ ہو نہ ہو ٹکیہ میں یہی جوہر معلوم ہوتا ہے کہ بازار میں بک کر پھر مالک کے پاس پلٹ کر آتی ہے۔ لاؤ اسے پھر بیچ آؤں۔ اب کے اچھی طرح حال کھل جائےگا۔ یہ بات دوسرے بھائی کی سمجھ میں آ گئی۔ پہلا روپیہ گھر رکھ کر سونے کی ٹکیہ دوسرے صراف کے ہاتھ بیچ کر اور روپیہ تھیلی میں رکھ کر جب گھر آئے تو معلوم ہوا کہ یہ تھیلی میں آ گئی ہے۔ جب اس کاتجربہ انہیں کئی بار ہو گیا تو وہ ٹکیہ کو بازار میں بہت کم پہنچاتے تھے کہ مبادا یہ بھید کھل جائے اور ہم پکڑے جائیں۔

اس گلاس کا یہ طلسم نکلا کہ دریائے نیل کا پانی اس میں بھرتے ہی انگوری شراب بن جاتی تھی، اور شراب بھی خالص تندتیز۔ ان دونوں بھائیوں نے دریائے نیل کے کنارہ پر موقع سے ایک بہت بڑی عمارت بنوائی۔ اور شراب فروشی کی دوکان کھول دی اور ہر روز ہزاروں روپیہ کو دریائے نیل کا پانی بیچتے تھے اور سب شراب فروشوں سے سستا بیچتے تھے۔ اور دوکاندار ان کے ہاتھوں سے برباد ہو گئے۔ ان کے دیوالے نکل گئے۔ انہوں نے چھان بین کی۔ جب انہیں کوئی بھید نہیں کھلا تو بادشاہ سے فریاد کی کہ عجب معاملہ ہے۔ ان دونوں بھائیوں کے یہاں نہ انگور آتے ہیں نہ کھجوریں۔ نہ تاڑی نہ سسیندھی، نہ ان کے یہاں کوئی بھٹی ہے۔ نہ یہ شراب بناتے ہیں مگر تمام ملک مصر سے اچھی شراب سستی بیچتے ہیں اور دنیا کو لوٹے کھاتے ہیں۔ تحقیق کی جائے، کہیں جادوگر تو نہیں ہیں۔

بادشاہ مصر کے کان میں پہلے بھی کچھ اڑتی سی خبر پہنچی تھی۔ شراب بیچنے والوں کی واویلا سے زیادہ خیال ہوا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ کہنے والے سچ کہتے ہیں۔ حکم ہوا دونوں بھائیوں کو حاضر کرو۔ دونوں بھائی چارو ناچار دربار میں آئے۔ بادشاہ نے فرمایا سچ سچ حال کہہ دو۔ نہیں تو تمہارے سر تن سے جدا کرا دوں گا۔ موت کے ڈر سے دونوں نے جو بھید تھا، کھول دیا۔ بادشاہ نے دونوں چیزیں منگواکر ان کی آزمائش کی۔ اوربیان کے موافق ٹھیک پاکر دونوں اپنے جواہر کے صندوقچہ میں بند کر کے اور قفل لگا کر صندوقچہ خزانچی کے حوالہ کیا۔ کنجی اپنے پاس رکھ لی اور دونوں بھائیوں سے کہا، تم ہمیں وہ قبہ چل کر بتاؤ، جس کے پاس وہ صندوق آہنی دفن ہے۔ کیا عجب ہے کہ اس صندوق کے اندرون اور زیادہ کوئی انوکھی شے امانت ہو، اور ہمارے ہاتھ لگے۔

دونوں بھائی بادشاہ کو لے کر قبہ کے پاس پہنچے۔ مگرنہ وہ قبہ ملا نہ اس جگہ کا پتہ لگا۔ بادشاہ نے واپس آکر ان سے کہا، تم دونوں بھائیوں نے ٹکیہ اور گلاس سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ اب اسی پر قناعت کرو۔ یہ دونوں چیزیں تمہیں اب نہیں مل سکتیں۔ دونوں بھائی بادشاہ کی جان کو صبر کر کے گھر چلے آئے۔ ایک دن بادشاہ نے خزانہ میں سے جواہر کا صندوقچہ منگایا۔ پہلے اس کے قفل کی مہر توڑی، پھر قفل کھول کر چاہا کہ ٹکیہ اور گلاس کو نکالے، مگر دونوں چیزیں اندر ہی اندر غائب تھیں۔ بادشاہ ہاتھ ملتا رہ گیا۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.