دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلہ انمول دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلہ انمول دیا
by شکیب جلالی

دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلہ انمول دیا
پیروں میں زنجیریں ڈالیں ہاتھوں میں کشکول دیا

اتنا گہرا رنگ کہاں تھا رات کے میلے آنچل کا
یہ کس نے رو رو کے گگن میں اپنا کاجل گھول دیا

یہ کیا کم ہے اس نے بخشا ایک مہکتا درد مجھے
وہ بھی ہیں جن کو رنگوں کا اک چمکیلا خول دیا

مجھ سا بے مایہ اپنوں کی اور تو خاطر کیا کرتا
جب بھی ستم کا پیکاں آیا میں نے سینہ کھول دیا

بیتے لمحے دھیان میں آ کر مجھ سے سوالی ہوتے ہیں
تو نے کس بنجر مٹی میں من کا امرت ڈول دیا

اشکوں کی اجلی کلیاں ہوں یا سپنوں کے کندن پھول
الفت کی میزان میں میں نے جو تھا سب کچھ تول دیا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse