دنیا میں یوں تو ہر کوئی اپنی سی کر گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دنیا میں یوں تو ہر کوئی اپنی سی کر گیا
by حفیظ جونپوری

دنیا میں یوں تو ہر کوئی اپنی سی کر گیا
زندہ ہے اس کا نام کسی پر جو مر گیا

صبح شب وصال ہے آئینہ ہاتھ میں
شرما کے کہہ رہے ہیں کہ چہرہ اتر گیا

ساقی کی بڑھ چلی ہیں جو بے التفاتیاں
شاید ہماری عمر کا پیمانہ بھر گیا

اتنا تو جانتے ہیں کہ پہلو میں دل نہیں
اس کی خبر نہیں کہ کہاں ہے کدھر گیا

ہم سے جو آپ روٹھ کے جاتے ہیں جائیے
سن لیجئے گا زہر کوئی کھا کے مر گیا

جاتا رہا شباب تو کچھ سوجھنے لگی
آنکھیں کھلیں شراب کا نشہ اتر گیا

ناصح کہاں کا چھیڑ دیا تو نے آ کے ذکر
اس کا خیال پھر مجھے بے چین کر گیا

دو دن میں یہ مزاج کی حالت بدل گئی
کل سر چڑھا تھا آج نظر سے اتر گیا

اچھا ہوا جو آپ عیادت کو آ گئے
سر کا یہ ایک بوجھ تھا وہ بھی اتر گیا

تیرے مریض ہجر کا اب تو یہ حال ہے
آیا جو دیکھنے کو وہ با چشم تر گیا

چھیڑا کسی نے ذکر محبت جو اے حفیظؔ
دل پر عجیب طرح کا صدمہ گزر گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse