دنیا میں بقا نہیں کسی کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دنیا میں بقا نہیں کسی کو
by برجموہن دتاتریہ کیفی

دنیا میں بقا نہیں کسی کو
مرنا اک روز ہے سبھی کو

وہ کون ہے جو ہے عیب سے پاک
کیا کوئی برا کہے کسی کو

معلوم ہے وعدے کی حقیقت
بھلا لیتے ہیں اپنے جی کو

خود نور خدا ہو تم میں پیدا
دل سے کھو دو اگر خودی کو

سو عیبوں کا ایک عیب ہے یہ
افلاس خدا نہ دے کسی کو

مشکل نہیں کوئی کام لیکن
ہمت لازم ہے آدمی کو

سچ کہہ دے کہ ہے قصور کس کا
منصف میں نے کیا تجھی کو

مانا کہ شراب چھوڑی کیفیؔ
ایسا تو کہو نہ مے کشی کو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse