دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
by فانی بدایونی

دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے

آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں
جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے

خود جو نہ ہونے کا ہو عدم کیا اسے ہونا کہتے ہیں
نیست نہ ہو تو ہست نہیں یہ ہستی کیا ہستی ہے

عجز گناہ کے دم تک ہیں عصمت کامل کے جلوے
پستی ہے تو بلندی ہے راز بلندی پستی ہے

جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں
آگے مرضی گاہک کی ان داموں تو سستی ہے

وحشت دل سے پھرنا ہے اپنے خدا سے پھر جانا
دیوانے یہ ہوش نہیں یہ تو ہوش پرستی ہے

جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا
جب بھی دنیا بستی تھی اب بھی دنیا بستی ہے

آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے

دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے

فانیؔ جس میں آنسو کیا دل کے لہو کا کال نہ تھا
ہائے وہ آنکھ اب پانی کی دو بوندوں کو ترستی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse