دنیا سے الگ ہم نے میخانے کا در دیکھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دنیا سے الگ ہم نے میخانے کا در دیکھا
by ریاض خیرآبادی

دنیا سے الگ ہم نے میخانے کا در دیکھا
میخانے کا در دیکھا اللہ کا گھر دیکھا

گوشے سے نشیمن کے آہوں کا اثر دیکھا
صیاد کا گھر جلتے بے برق و شرر دیکھا

دونوں کے مزے لوٹے دونوں کا اثر دیکھا
اللہ کا گھر دیکھا میخانے کا در دیکھا

یوں حشر میں سیریں کیں فردوس و جہنم کی
کچھ دیر ادھر دیکھا کچھ دیر ادھر دیکھا

اے شیخ وہ کعبہ ہو یا ہو در مے خانہ
تو نے مجھے جب دیکھا سجدے ہی میں سر دیکھا

نالہ ہمیں کرنا تھا دم عشق کا بھرنا تھا
سو رنگ سے مرنا تھا ہر رنگ سے مر دیکھا

جب موج ابھرتی ہے کہتی ہے وہ شوخی سے
بازو میں بط مے کے سرخاب کا پر دیکھا

ٹانکے دیئے جاتے ہیں کیوں لب سیے جاتے ہیں
ہنسنے کا مزا تو نے اے زخم جگر دیکھا

نسبت نہیں مجھ کو کچھ بیکس کے بجھے دل سے
بجھتے ہوئے تجھ کو بھی آئے شمع سحر دیکھا

سہمے ہوئے بیٹھے ہیں کھوئے ہوئے بیٹھے ہیں
جس رات کے ارماں تھے اس رات کو ڈر دیکھا

پھل پھول نہیں لاتے یہ باغ محبت میں
ہر نخل تمنا کو بے برگ و ثمر دیکھا

کعبے میں نظر آئے جو صبح اذاں دیتے
میخانے میں راتوں کو ان کا بھی گزر دیکھا

کچھ کام نہیں مے سے گو عشق ہے اس شے سے
میں رند ریاضؔ ایسے دامن بھی نہ تر دیکھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse