دنیائے غم کو زیر و زبر کر سکے تو کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دنیائے غم کو زیر و زبر کر سکے تو کر
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

دنیائے غم کو زیر و زبر کر سکے تو کر
رحمت کی مجھ پہ ایک نظر کر سکے تو کر

اے دل تو ایسی آہ اگر کر سکے تو کر
دنیا ادھر کی آج ادھر کر سکے تو کر

اے آہ برق ریز تجھے روکتا ہے کون
اس بے خبر کو میری خبر کر سکے تو کر

مشہور ہے کہ عشق کی راہیں ہیں خوفناک
ہمت سے پہلے پوچھ سفر کر سکے تو کر

عارض ہیں تیرے زلفیں بھی تیری کسی سے کیا
اک جا پہ جمع شام و سحر کر سکے تو کر

ناداں حدیث عشق کے معنی کچھ اور ہیں
قابو میں دل کو اپنے اگر کر سکے تو کر

اے آہ تو ہی حوصلہ اپنا نکال لے
اس سنگ دل کے دل پہ اثر کر سکے تو کر

عالمؔ جہان عشق کہ دشواریاں نہ پوچھ
دل کو جو راز دار جگر کر سکے تو کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse