دم نہ نکلا یار کی نامہربانی دیکھ کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دم نہ نکلا یار کی نامہربانی دیکھ کر
by شیخ علی بخش بیمار

دم نہ نکلا یار کی نامہربانی دیکھ کر
سخت حیراں ہوں میں اپنی سخت جانی دیکھ کر

شام سے تا صبح فرقت صبح سے تا شام ہجر
ہم چلے کیا کیا نہ لطف زندگانی دیکھ کر

یوں تو لاکھوں غمزدہ ہوں گے مگر اے آسماں
جب تجھے جانوں کہ لا دے میرا ثانی دیکھ کر

اب تپ فرقت سے یہ کچھ ضعف طاری ہے کہ آہ
دنگ رہ جاتی ہے ہم کو نا توانی دیکھ کر

واسطے جس کے ہوئے بحر فنا کے آشنا
وہ پسیجا بھی نہ اپنی جاں فشانی دیکھ کر

باز آ بیمارؔ اس کے عشق سے جانے بھی دے
ترس آتا ہے یہ تیری نوجوانی دیکھ کر


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.