دم مرگ بالیں پر آیا تو ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دم مرگ بالیں پر آیا تو ہوتا
by امداد علی بحر

دم مرگ بالیں پر آیا تو ہوتا
مرے منہ میں پانی چوایا تو ہوتا

یہ سچ ہے وفادار کوئی نہیں ہے
کسی دن مجھے آزمایا تو ہوتا

تسلی نہ دیتا تشفی نہ کرتا
مرے رونے پر مسکرایا تو ہوتا

مجھے اپنی فرقت سے مارا تو مارا
دم نزع مکھڑا دکھایا تو ہوتا

غلط ہے کہ مردہ نہیں زندہ ہوتا
تو میرے جنازے پر آیا تو ہوتا

وہیں چونک اٹھتا میں خواب لحد سے
مرا شانہ تو نے ہلایا تو ہوتا

ہوا عید کے دن میں قربان تجھ پر
بلا کر گلے سے لگایا تو ہوتا

مرے قتل پر تم نے بیڑا اٹھایا
مرے ہاتھ کا پان کھایا تو ہوتا

وہ سنتا نہ سنتا ہوس تو نہ رہتی
مرا حال ہمدم سنایا تو ہوتا

مسی پر بھی داغوں کا ثمرہ نہ پایا
چراغ اک لحد پر جلایا تو ہوتا

گلا ہے مجھے تم سے مرغان گلشن
کبھی درد میرا بٹایا تو ہوتا

کبھی میرے جانب سے پرواز کرتے
کوئی حال پرسی کو آیا تو ہوتا

نہیں یہ بھی شکوہ نہ آئے نہ آئے
گلوں کو مرا غم سنایا تو ہوتا

در و بام کا بحرؔ خواہاں نہیں میں
مرے آشیانے میں سایا تو ہوتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse