دم لے اے کوہ کن اب تیشہ زنی خوب نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دم لے اے کوہ کن اب تیشہ زنی خوب نہیں
by شاہ نصیر

دم لے اے کوہ کن اب تیشہ زنی خوب نہیں
جان شیریں کو نہ کھو کوہ کنی خوب نہیں

ٹک تو ہنس بول یہ غنچہ دہنی خوب نہیں
رشک گل اتنی بھی ہاں کم سخنی خوب نہیں

سر پہ قمری کو بٹھایا تو ہے تو نے پر سرو
تیری آزاد وشی بے کفنی خوب نہیں

قابل چشم نمائی ہے تو اے طفل سرشک
ابتر اتنا بھی نہ ہو ناشدنی خوب نہیں

فصل گل آنے دے دکھلا نہ ابھی سے زنجیر
یہ روش موج نسیم چمنی خوب نہیں

منع ہنسنے سے تو کرتا نہیں اے برق وشو
پھر شرارت سے یہ چشمک زدنی خوب نہیں

ہو سکے تجھ سے تو کر مرغ چمن گل کا علاج
اس کو بیماری اعضا شکنی خوب نہیں

کوئی دم اور بھی اس ابروئے پر خم کو چھو
اصفہانی یہ ابھی تیغ بنی خوب نہیں

چشم سے اس کی نہ کر دعویٔ ہم چشمی دیکھ
کہ خطا ایسی غزال ختنی خوب نہیں

مار کھائے گا وہ خیاط کہ جس نے تیرے
بند جامے کے لیے ناگ پھنی خوب نہیں

منہ کو دیکھ اپنے تو اور اس کے لب لعل کو دیکھ
روکشی اس سے عقیق یمنی خوب نہیں

ترک چشم بت بدکیشں خیال اس کا چھوڑ
مرغ دل سہمے ہے ناوک فگنی خوب نہیں

شاخ گل ہے کہ کمر باد سے لچکے ہے تری
اے میاں اتنی بھی نازک بدنی خوب نہیں

میں بھی ہوں بادیہ پیمائے جنوں اے مجنوں
اس قدر آگے مرے لاف زنی خوب نہیں

چھلنی کانٹوں سے ہوئے گو مرے تلوے لیکن
دشت وحشت کی ابھی خاک چھنی خوب نہیں

زہر کھا جاؤں گا اے ساقیٔ پیمانہ بہ کف
باز آ جانے دے پیماں شکنی خوب نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse