دم رفتار جاناں یہ صدائے ناز آتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دم رفتار جاناں یہ صدائے ناز آتی ہے
by رشید لکھنوی

دم رفتار جاناں یہ صدائے ناز آتی ہے
سنبھالیں سب دلوں کو پاؤں کی آواز آتی ہے

صبا جو پر مرا اے باغباں لاتی ہے گلشن میں
قفس سے ساتھ یاں تک حسرت پرواز آتی ہے

ابھی جاؤ نہ یاراں قفس گلزار کی جانب
ذرا ہم منتظر ہیں طاقت پرواز آتی ہے

اثر یہ ہے کہ بلبل جب قفس میں کرتی ہے نالہ
شکست رنگ گل کی باغ سے آواز آتی ہے

نظر دزدیدہ تیری کب نظر آتی ہے عاشق کو
اڑا جاتا ہے دل اور تیر کی آواز آتی ہے

شکوہ حسن یہ ہے جب کبھی تم جا نکلتے ہو
تو بت خانے سے یا اللہ کی آواز آتی ہے

صدا دی میں نے جب آنے لگی صبح شب وصلت
سمجھ کر آ کدھر او تفرقہ پرواز آتی ہے

ترے باعث سے جس نے کل ہمیں دی تھی بہت ایذا
وہی شب آج پھر اے طالع ناساز آتی ہے

ہوئی مدت ترے زلفوں کے دیوانے کی صحت کو
بگڑ جاتا ہے شب زنجیر کی آواز آتی ہے

ذرا کہہ دے کوئی ان سے قریب آیا دم آخر
کہ الٹی سانس اب تو اے مرے دم ساز آتی ہے

جوانی کے نشاں اندام سے ہونے لگے ظاہر
مبارک ہو بہار اے سرد باغ ناز آتی ہے

جھکائے سر نہ کیوں خاموش بیٹھوں ہجر جاناں میں
کہ دل کے ٹوٹنے کی کان میں آواز آتی ہے

بھلا آج زندہ آہ دل عاشق کرے پیدا
کہ خود وہ کہہ رہے ہیں درد کی آواز آتی ہے

رشیدؔ اشعار مہمل پڑھ رہے ہو جمع ہیں شاعر
خجل ہوتے نہیں تم دل کی یہ آواز آتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse