دم رفتار جاناں یہ صدائے ناز آتی ہے
دم رفتار جاناں یہ صدائے ناز آتی ہے
سنبھالیں سب دلوں کو پاؤں کی آواز آتی ہے
صبا جو پر مرا اے باغباں لاتی ہے گلشن میں
قفس سے ساتھ یاں تک حسرت پرواز آتی ہے
ابھی جاؤ نہ یاراں قفس گلزار کی جانب
ذرا ہم منتظر ہیں طاقت پرواز آتی ہے
اثر یہ ہے کہ بلبل جب قفس میں کرتی ہے نالہ
شکست رنگ گل کی باغ سے آواز آتی ہے
نظر دزدیدہ تیری کب نظر آتی ہے عاشق کو
اڑا جاتا ہے دل اور تیر کی آواز آتی ہے
شکوہ حسن یہ ہے جب کبھی تم جا نکلتے ہو
تو بت خانے سے یا اللہ کی آواز آتی ہے
صدا دی میں نے جب آنے لگی صبح شب وصلت
سمجھ کر آ کدھر او تفرقہ پرواز آتی ہے
ترے باعث سے جس نے کل ہمیں دی تھی بہت ایذا
وہی شب آج پھر اے طالع ناساز آتی ہے
ہوئی مدت ترے زلفوں کے دیوانے کی صحت کو
بگڑ جاتا ہے شب زنجیر کی آواز آتی ہے
ذرا کہہ دے کوئی ان سے قریب آیا دم آخر
کہ الٹی سانس اب تو اے مرے دم ساز آتی ہے
جوانی کے نشاں اندام سے ہونے لگے ظاہر
مبارک ہو بہار اے سرد باغ ناز آتی ہے
جھکائے سر نہ کیوں خاموش بیٹھوں ہجر جاناں میں
کہ دل کے ٹوٹنے کی کان میں آواز آتی ہے
بھلا آج زندہ آہ دل عاشق کرے پیدا
کہ خود وہ کہہ رہے ہیں درد کی آواز آتی ہے
رشیدؔ اشعار مہمل پڑھ رہے ہو جمع ہیں شاعر
خجل ہوتے نہیں تم دل کی یہ آواز آتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |