دم بخود بیٹھ کے خود جیسے زباں گیلی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دم بخود بیٹھ کے خود جیسے زباں گیلی ہے
by آرزو لکھنوی

دم بخود بیٹھ کے خود جیسے زباں گیلی ہے
سانس کیا لوں کہ ہوا دہر کی زہریلی ہے

بن گیا قطرۂ ناچیز ترقی سے گہر
ذات ہے ایک فقط نام کی تبدیلی ہے

لاگ نے جس کی مجھے پھونکا ہے اندر اندر
شمع اس آگ کی اک ہیئت تمثیلی ہے

مل کے مٹی تری چوکھٹ کی ہوا خاک سے پاک
جو لکیر اب مرے ماتھے کی ہے چمکیلی ہے

پھر اڑانا ہیں گریباں کے مجھی کو پرزے
ہاتھ بے کار ابھی تھے کی قبا سی لی ہے

آرزوؔ ہوگا یہ مقتل ہی عزا خانہ بھی
شفقی فرش زمیں کا ہے تو چھت نیلی ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse