دم آخر کسی کا شکوۂ بیداد کرتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دم آخر کسی کا شکوۂ بیداد کرتے ہیں
by ریاض خیرآبادی

دم آخر کسی کا شکوۂ بیداد کرتے ہیں
نہیں ہیں ہچکیاں رہ رہ کے ہم فریاد کرتے ہیں

رہا ہو کر ہم اتنی خاطر صیاد کرتے ہیں
نشیمن رات کو دن کو قفس آباد کرتے ہیں

فغاں سن کر مری وہ ناز سے ارشاد کرتے ہیں
کہاں تو مر رہی اے موت تجھ کو یاد کرتے ہیں

بڑھاپے میں تجھے ہم اے جوانی یاد کرتے ہیں
اب اپنی عمر آخر اس طرح برباد کرتے ہیں

عجب انداز سے کہتی ہیں دل کی حسرتیں مجھ سے
ہمیں گھر سے نکالیں گھر وہ کیوں برباد کرتے ہیں

نہ آنکھوں میں کبھی آنسو نہ ہونٹھوں پر کبھی نالے
نہ ہم قسمت کو روتے ہیں نہ ہم فریاد کرتے ہیں

گلے میں کیوں رگ جاں بن کے خنجر رہ گیا تیرا
کہیں بسمل سے ایسی شوخیاں جلاد کرتے ہیں

یہ کیوں ہے دشمنوں کو دوستوں کو جستجو اس کی
وہ مجھ پر رحم فرماتے ہیں یا بیداد کرتے ہیں

گرانا ہے ہمیں کچھ بجلیاں صیاد کے گھر پر
اثر خیز اک نئی طرز فغاں ایجاد کرتے ہیں

دل مضطر کی تصویریں بھری ہیں کیا مرقع میں
کچھ استادی بھی اس میں مانی و بہزاد کرتے ہیں

ہمارے ساتھ ہے صیاد بھی یا رب مصیبت میں
کلیجا منہ کو آتا ہے جو ہم فریاد کرتے ہیں

لکھا کس حسن سے خط میں کہ ہم تجھ سے کشیدہ ہیں
کشش حرفوں کی ایسی ہے کہ ہم بھی صاد کرتے ہیں

اٹھوں گا یوں ہی محشر میں لیے میں ان کے خنجر کو
گلے میرے لگاتے ہیں یہ کیا جلاد کرتے ہیں

کہاں وہ ہیں کہاں ہم ہیں پڑا ہے تفرقہ یا رب
وہ ہم کو یاد کرتے ہیں ہم ان کو یاد کرتے ہیں

مری صورت جو دیکھی ہم نشیں سے ہنس کے فرمایا
یہی کہسار پر اب ماتم فرہاد کرتے ہیں

کبھی تھوڑی سی پی لی لب نہیں اس کی بھی کچھ پروا
الگ گوشے میں بیٹھے ہیں خدا کو یاد کرتے ہیں

مجھے دیکھا تو بولے میرے کوچے سے نکل جائیں
یہ دل میں چٹکیاں لیتے ہیں یا فریاد کرتے ہیں

بزرگی ہے کہ مرتے ہیں بتان شوخ پر اب بھی
ریاضؔ اس عمر میں کیوں عاقبت برباد کرتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse