دم آخر مصیبت کاٹ دو بہر خدا میری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دم آخر مصیبت کاٹ دو بہر خدا میری
by مضطر خیرآبادی

دم آخر مصیبت کاٹ دو بہر خدا میری
تم آ کر درد کے پردے میں کر جاؤ دوا میری

محبت بت کدے میں چل کے اس کا فیصلہ کر دے
خدا میرا خدا ہے یا یہ مورت ہے خدا میری

یہاں سے جب گئی تھی تب اثر پر خار کھائے تھی
وہاں سے پھول برساتی ہوئی پلٹی دعا میری

تو ہی کہہ دے یہ جسم زار میرا ہے کہ تیرا ہے
تو ہی کہہ دے یہ روح ناتواں تیری ہے یا میری

پڑا ہے تفرقہ جس دن سے کیا کیا یاد کرتی ہے
ادھر مجھ کو جفا تیری ادھر تجھ کو وفا میری

مقید ہو کے لطف ہستئ آزاد بھی کھویا
وہ کیا تھی ابتدا میری یہ کیا ہے انتہا میری

وہاں جب تھے تو جسم ناتواں میں روح پھونکی تھی
یہاں جس دن سے آئے آپ بن بیٹھے قضا میری

میان حشر یہ کافر بڑے اترائے پھرتے ہیں
مزا آ جائے ایسے میں اگر سن لے خدا میری

کسی کا جلوۂ رنگیں یہ کہتا ہے انہیں پوجو
یہ اس پتھر کے بت ہیں جس پہ پستی تھی حنا میری

نہ جانے کون سے یوسف کا جلوہ مجھ میں پنہاں ہے
زلیخا آج تک کرتی ہے مضطرؔ التجا میری

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse