دل ہے غذائے رنج جگر ہے غذائے رنج

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل ہے غذائے رنج جگر ہے غذائے رنج
by وزیر علی صبا لکھنؤی

دل ہے غذائے رنج جگر ہے غذائے رنج
پیدا کیا ہے ہم کو خدا نے برائے رنج

حاصل کسی سے کچھ نہیں ہوتا سوائے رنج
دنیا میں لائی ہے ہمیں قسمت برائے رنج

آدم سے باغ خلد چھٹا ہم سے کوئے یار
وہ ابتدائے رنج ہے یہ انتہائے رنج

ممکن نہیں ہے آئے جو بوئے گل نشاط
ایسے دماغ جاں میں بھری ہے ہوائے رنج

جھڑکی دے گالیاں دے ستم گر ذلیل کر
کافر ہو اے صنم جو ذرا دل میں لائے رنج

ہم نخل آہ سے چمن روزگار میں
باندھا کئے ہوا پئے نشو و نمائے رنج

اے صانع ازل مری مٹی خراب کی
کیا چاہئے تھی خانۂ دل میں بنائے رنج

سب دوست اپنی حال میں ہیں آپ مبتلا
کس سے کہوں میں کون سنے ماجرائے رنج

ہم بار عشق کے متحمل نہ ہو سکے
بس دل پکڑ کے بیٹھ گئے وہ اٹھائے رنج

ہیں سکہ ہائے داغ ہزاروں بھرے ہوئے
قصر دل فقیر ہے دولت سرائے رنج

بھولی نہیں نصیب کے لکھے کی خوبیاں
تحریر لوح دل پہ ہے سب ماجرائے رنج

ممکن نہیں مزاج رہے ایک حال پر
گہہ آشنائے عیش ہیں گہہ آشنائے رنج

اچھے یہ قہقہے نہیں عاشق کے حال پر
دیکھو ہنسی ہنسی میں کہیں ہو نہ جائے رنج

ہوتے ہیں کس لباس میں اشعار دردناک
بہر عروس فکر ہے زیبا ردائے رنج

کیا غم جو کوئے یار میں ہوتا ہوں پائمال
فرط خوشی سے خاک نہیں دل میں جائے رنج

کہتے ہیں میرے دوست مرا حال دیکھ کر
دشمن کو بھی خدا نہ کرے مبتلائے رنج

سودائے عشق میں یہ سعادت حصول ہے
بخت سیہ ہے سایۂ بال ہمائے رنج

اندھیر صدمۂ شب فرقت ہے اے صباؔ
آندھی چراغ جاں کے لئے ہے ہوائے رنج

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse