دل ہی میرا فقط ہے مطلب کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل ہی میرا فقط ہے مطلب کا
by سخی لکھنوی

دل ہی میرا فقط ہے مطلب کا
یا جگر بھی ہے آپ کے ڈھب کا

قیس و فرہاد سے میں ہوں واقف
ہو چکا ہے مقابلہ سب کا

کھائی ہے اک نئی مٹھائی آج
بوسہ پایا ہے یار کے لب کا

مے کدہ میں شراب پیتے ہیں
یہ پتا ہے ہمارے مشرب کا

شیعہ سنی میں تو بکھیڑے ہیں
نام لوں کس کے آگے مذہب کا

ملک الموت سے کہو پھر جائیں
جیتے جی مر چکا ہوں میں کب کا

آپ فرمائیں ہجر کا احوال
میں کروں ذکر وصل کی شب کا

صبح کو جھونکے نیند کے کیسے
کہیں جاگا ہوا ہے تو شب کا

اس کے کوچہ کی بھیک چاہتے ہیں
شوق جاگیر کا نہ منصب کا

رہے دن بھر وہ مدعی میرے
یاد کر کے معاملہ شب کا

برگ گل آ میں تیرے بوسے لوں
تجھ میں ہے ڈھنگ یار کے لب کا

نقد دل دیتا ہوں تو کہتے ہیں
واہ ایسا سخیؔ ہے تو کب کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse