دل ہو خراب دین پہ جو کچھ اثر پڑے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل ہو خراب دین پہ جو کچھ اثر پڑے
by اکبر الہ آبادی

دل ہو خراب دین پہ جو کچھ اثر پڑے
اب کار عاشقی تو بہر کیف کر پڑے

عشق بتاں کا دین پہ جو کچھ اثر پڑے
اب تو نباہنا ہے جب اک کام کر پڑے

مذہب چھڑایا عشوۂ دنیا نے شیخ سے
دیکھی جو ریل اونٹ سے آخر اتر پڑے

بیتابیاں نصیب نہ تھیں ورنہ ہم نشیں
یہ کیا ضرور تھا کہ انہیں پر نظر پڑے

بہتر یہی ہے قصد ادھر کا کریں نہ وہ
ایسا نہ ہو کہ راہ میں دشمن کا گھر پڑے

ہم چاہتے ہیں میل وجود و عدم میں ہو
ممکن تو ہے جو بیچ میں ان کی کمر پڑے

دانا وہی ہے دل جو کرے آپ کا خیال
بینا وہی نظر ہے کہ جو آپ پر پڑے

ہونی نہ چاہئے تھی محبت مگر ہوئی
پڑنا نہ چاہئے تھا غضب میں مگر پڑے

شیطان کی نہ مان جو راحت نصیب ہو
اللہ کو پکار مصیبت اگر پڑے

اے شیخ ان بتوں کی یہ چالاکیاں تو دیکھ
نکلے اگر حرم سے تو اکبرؔ کے گھر پڑے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse