دل ہم نے جو چشم بت بے باک سے باندھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل ہم نے جو چشم بت بے باک سے باندھا
by نظیر اکبر آبادی

دل ہم نے جو چشم بت بے باک سے باندھا
پھر نشۂ صہبا سے نہ تریاک سے باندھا

اس زلف سے جب ربط ہوا جی کو تو ہم نے
شانے کا تصور دل صد چاک سے باندھا

دیکھا نہ قد سرو کو پھر ہم نے چمن میں
جس دن سے دل اس قامت چالاک سے باندھا

جو آہوئے دل بھا گیا اس صد فگن کو
جھپ اس نے اسے کاکل پیچاک سے باندھا

اور جو نہ پسند آیا اسے وہ تو نظیرؔ آہ
نے صید کیا اس کو نہ فتراک سے باندھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse