دل ہمارا ہے کہ ہم مائل فریاد نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل ہمارا ہے کہ ہم مائل فریاد نہیں
by عزیز لکھنوی

دل ہمارا ہے کہ ہم مائل فریاد نہیں
ورنہ کیا ظلم نہیں کون سی بیداد نہیں

حسن اک شان الٰہی ہے مگر اے بے مہر
بے وفائی تو کوئی حسن خداداد نہیں

سر تربت وہ خموشی پہ مری کہتے ہیں
مرنے والے تجھے پیمان وفا یاد نہیں

حسن آراستہ قدرت کا عطیہ ہے مگر
کیا مرا عشق جگر سوز خدا داد نہیں

لاکھ پابند علائق نہ رہے کوئی یہاں
طبع وارستہ مگر فکر سے آزاد نہیں

باہم آئین وفا رسم محبت کیسی
وقت اب وہ ہے کہ بندوں کو خدا یاد نہیں

چشم مخمور وہ ہے کابل غرق مے ناب
دفتر عشق پہ جب تک کہ مرے صاد نہیں

پوچھتے کیا ہو تباہی کا فسانہ مجھ سے
دل برباد کی صورت بھی مجھے یاد نہیں

ذرے ذرے میں ہے اک عالم معنی پنہاں
خاک برباد کو سمجھے ہو کہ آباد نہیں

آپ کہتے ہیں کہ ہے گور غریباں ویراں
ایسی بستی تو جہاں میں کوئی آباد نہیں

آنسوؤں کو بھی ذرا دیکھ لے رونے والے
ان ستاروں میں تو دنیا کوئی آباد نہیں

حسن خود میں نے کیے آئنے کے سو ٹکڑے
اب نہ کہنا کہ نگاہیں ستم ایجاد نہیں

کب خیالات پہ ممکن ہے کسی کا پہرہ
دل تو آزاد رہا میں اگر آزاد نہیں

سینہ کاوی کے لیے شرط ہے دل کی ہمت
ناخن دست جنوں تیشۂ فرہاد نہیں

بے خودی منزل عرفاں ہے ذرا ہوش میں آ
ہے خودی کا یہ نتیجہ کہ خدا یاد نہیں

طبقۂ خاک میں ہے عالم خاموش آباد
جس کو برباد سمجھتے ہو وہ برباد نہیں

دل ویراں کی تباہی کی کوئی حد ہے عزیزؔ
میں سمجھتا ہوں کہ دنیا ابھی آباد نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse