دل ہمارا جانب زلف سیہ فام آئے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل ہمارا جانب زلف سیہ فام آئے گا
by رشید لکھنوی

دل ہمارا جانب زلف سیہ فام آئے گا
یہ مسافر آج منزل پر سر شام آئے گا

گو برا ہے دل مگر رہنے دیا ہے اس لئے
عشق کی خوگر طبیعت ہے کبھی کام آئے گا

عشق دل کامل نہیں دیکھو ابھی کھولو نہ زلف
صید جب شہباز ہے کیوں کر نہ تہہ دام آئے گا

قاصد مرگ آئے یا آئے تمہارا نامہ بر
کہہ رہا ہے دل کہ کوئی آج پیغام آئے گا

جام غوطہ کر کے کوثر سے منگائی ہے شراب
مجھ کو فرماتے ہیں وہ پابند اسلام آئے گا

نیک ناموں کا ہو مجمع بزم ہو آراستہ
آپ خوش ہوں یا خفا ہوں ایک بدنام آئے گا

تم نہا لو جلد ورنہ رشک سے مر جاؤں گا
دم میں اب سایہ سر دیوار حمام آئے گا

دونوں آنکھیں دل جگر ہیں عشق ہونے میں شریک
یہ تو سب اچھے رہیں گے مجھ پر الزام آئے گا

ترک کر دو شاعری کو عقل رکھتے ہو رشیدؔ
ہو چکے ہو پیر اب کیا تم کو یہ کام آئے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse