دل ہر گھڑی کہتا ہے یوں جس طور سے اب ہو سکے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل ہر گھڑی کہتا ہے یوں جس طور سے اب ہو سکے
by نظیر اکبر آبادی

دل ہر گھڑی کہتا ہے یوں جس طور سے اب ہو سکے
اٹھ اور سنبھل گھر سے نکل اور پاس اس چنچل کے چل

دیکھی جو اس محبوب کی ہم نے جھلک ہے کل کی کل
پائی ہر اک تعویذ میں اپنے دل بیکل کی کل

جب ناز سے ہنس کر کہا اس نے ارے چل کیا ہے تو
کیا کیا پسند آئی ہیں اس نازنیں چنچل کی چل

ہے وہ کف پا نرم تر اس کی کہ وقت ہم سری
ڈالے کف پائے صنم نرمی وہیں مخمل کی مل

ہم ہیں تمہارے مبتلا مدت سے ہے یہ آرزو
بیٹھو ہمارے پاس بھی اے جاں کبھی اک پل کی پل

ہے دم غنیمت اے نظیرؔ اب میکدے میں بیٹھ کر
تو آج تو مے پی میاں پھر دیکھ لیجو کل کی کل

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse