دل گیا رونق حیات گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل گیا رونق حیات گئی
by جگر مراد آبادی

دل گیا رونق حیات گئی
غم گیا ساری کائنات گئی

دل دھڑکتے ہی پھر گئی وہ نظر
لب تک آئی نہ تھی کہ بات گئی

دن کا کیا ذکر تیرہ بختوں میں
ایک رات آئی ایک رات گئی

تیری باتوں سے آج تو واعظ
وہ جو تھی خواہش نجات گئی

ان کے بہلائے بھی نہ بہلا دل
رائیگاں سعئ التفات گئی

مرگ عاشق تو کچھ نہیں لیکن
اک مسیحا نفس کی بات گئی

اب جنوں آپ ہے گریباں گیر
اب وہ رسم تکلفات گئی

ہم نے بھی وضع غم بدل ڈالی
جب سے وہ طرز التفات گئی

ترک الفت بہت بجا ناصح
لیکن اس تک اگر یہ بات گئی

ہاں مزے لوٹ لے جوانی کے
پھر نہ آئے گی یہ جو رات گئی

ہاں یہ سرشاریاں جوانی کی
آنکھ جھپکی ہی تھی کہ رات گئی

جلوۂ ذات اے معاذ اللہ
تاب آئینۂ صفات گئی

نہیں ملتا مزاج دل ہم سے
غالباً دور تک یہ بات گئی

قید ہستی سے کب نجات جگرؔ
موت آئی اگر حیات گئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse