دل کے سب داغ کھلے ہیں گل خنداں ہو کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کے سب داغ کھلے ہیں گل خنداں ہو کر
by جلیل مانکپوری

دل کے سب داغ کھلے ہیں گل خنداں ہو کر
رنگ لایا ہے یہ غنچہ چمنستاں ہو کر

دامن تر ہے کہ دفتر ہے یہ رسوائی کا
میری آنکھوں نے ڈبویا مجھے گریاں ہو کر

نیند آئی جو کبھی زلف کے دیوانے کو
چونک اٹھا خواب پریشاں سے پریشاں ہو کر

نگہ شوق تو در پردہ خبر لیتی ہے
آپ جائیں گے کہاں آنکھ سے پنہاں ہو کر

جلوہ گر آئنہ خانے میں ہوا کون حسیں
نقش دیوار ہیں سب آئنے حیراں ہو کر

دل میں آئے ہیں تو اب دل سے نکلتے ہی نہیں
گھر پہ قبضہ کیے بیٹھے ہیں وہ مہماں ہو کر

شہرۂ حسن ابھی کیا ہے شباب آنے دو
نام چمکے گا تمہارا مہ تاباں ہو کر

قتل کے بعد وفا میری جو یاد آئی ہے
سر جھکائے ہوئے بیٹھے ہیں پشیماں ہو کر

مست آنکھوں پہ بکھر جاتی ہے جب زلف جلیلؔ
میں سمجھتا ہوں گھٹا چھائی ہے مے خانوں پر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse