دل کے زخموں سے چمن میں شور برپا کر دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کے زخموں سے چمن میں شور برپا کر دیا
by افسر میرٹھی

دل کے زخموں سے چمن میں شور برپا کر دیا
میں نے پھولوں میں ہنسی کا تیری چرچا کر دیا

اپنی وحشت اپنی بدنامی کا مجھ کو غم نہیں
اس کا رونا ہے کہ میں نے تجھ کو رسوا کر دیا

پھر مریض غم نہ بولا دیکھ کر ظالم تجھے
آنکھوں ہی آنکھوں میں یہ کیا کہہ دیا کیا کر دیا

سامنے تم آ گئے میں دل پکڑ کر رہ گیا
میری قسمت سے دوا نے درد پیدا کر دیا

ہائے اب کوئی ٹھکانا آرزوؤں کا نہیں
دل کی بستی لوٹ لی ظالم نے یہ کیا کر دیا

چاندنی کا رات اک دریا بنایا ماہ نے
موتیوں سے میں نے پر رو رو کے دریا کر دیا

میری میت پر وہ آیا سب ہوئے محو جمال
موت کو بھی میری ظالم نے تماشا کر دیا

اب شعاع حسن پر انوار ہے نظارہ سوز
تیری اس بے پردگی نے خود ہی پردہ کر دیا

دشت گردی کی بدولت چار تنکے چن لئے
آشیاں کا میری وحشت نے سہارا کر دیا

کیا صدا تھی سننے والے دل پکڑ کر رہ گئے
تیرے نالوں نے تو افسرؔ حشر برپا کر دیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse