دل کے آتے ہی یہ نقشہ ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کے آتے ہی یہ نقشہ ہو گیا
by نسیم دہلوی

دل کے آتے ہی یہ نقشہ ہو گیا
کیا بتاؤں دوستو کیا ہو گیا

تم نے فرصت پائی گھر بیٹھے طبیب
مر گیا بیمار اچھا ہو گیا

کر چکا تھا کام افسون رقیب
آج ہم سے ان سے پرچھا ہو گیا

ان پہ دل آیا بڑی مشکل پڑی
مدعی پہلو میں پیدا ہو گیا

ہائے بیتابی نے میری کیا کیا
حال سب ان پر ہویدا ہو گیا

ایک ظالم پر طبیعت آ گئی
پھر وہی اب حال میرا ہو گیا

شکر ہے پیدا کیا خالق نے جسم
روح کا کچھ دن کو پردا ہو گیا

کھل گئے زخموں کے منہ اچھا ہوا
درد کے بڑھنے کو رستہ ہو گیا

تو ہی چل اے روح جوش شوق ہے
خط کے آنے میں تو عرصہ ہو گیا

وقت بد کچھ پوچھ کر آتا نہیں
ہنستے ہنستے ان سے جھگڑا ہو گیا

حال کیوں ابتر ہے اس درجہ نسیمؔ
سچ کہو دل کس پہ شیدا ہو گیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.