دل کی کہوں یا کہوں جگر کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کی کہوں یا کہوں جگر کی
by شاد لکھنوی

دل کی کہوں یا کہوں جگر کی
کچھ بات کروں ادھر ادھر کی

لو دل کی بجھائیں یا جگر کی
لیں اشک خبر کدھر کدھر کی

اٹھنے نہ دیا ہمیں مرے پر
لی ضعف نے عاقبت پسر کی

گھڑیال نصیب ہوں شب وصل
سر چوٹ ہے ہر گھڑی گجر کی

ڈھلنے کو ہے مہر نوجوانی
چھٹنے پہ ہے توپ دوپہر کی

کیا کم سخنوں کو شمع کہیے
شمعوں کی زباں ہے ہاتھ بھر کی

مرقد میں چلے رہ عدم لی
سوجھی جو مسافرت میں گھر کی

کاکل ہوئی تر عرق سے رخ کے
پی سانپ نے اس پھول پر کی

جی قبر میں خاک بھلے اے شادؔ
بستی ہے اجاڑ اس نگر کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse