دل کی کدورتیں اگر انساں سے دور ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کی کدورتیں اگر انساں سے دور ہوں
by حیدر علی آتش

دل کی کدورتیں اگر انساں سے دور ہوں
سارے نفاق گبر و مسلماں سے دور ہوں

نزدیک آ چکی ہے سواری بہار کی
برگ خزاں رسیدہ گلستاں سے دور ہوں

دل اس قدر گداز ہے برسوں ہی غم رہے
آنسو جو اپنے دیدۂ گریاں سے دور ہوں

مٹتا نہیں نوشتۂ قسمت کسی طرح
جوہر کبھی نہ خنجر براں سے دور ہوں

فصل بہار آئی ہے کپڑوں کو پھاڑیے
دل کے بخار دست و گریباں سے دور ہوں

چھڑکاؤ کا ارادہ ہے چشم پر آب کا
گرد و غبار کوچۂ جاناں سے دور ہوں

یہ تنگ کر رہا ہے تو الجھا رہے ہیں وہ
دامن کے پاٹ پہلے گریباں سے دور ہوں

وحش و طیور کو مری آہیں کریں ہلاک
آب و گیاہ کوہ و بیاباں سے دور ہوں

ممکن نہیں نجات اسیران عشق کو
یہ قیدی وہ نہیں کہ جو زنداں سے دور ہوں

مدت کے بعد آئے ہیں صحرا میں اے جنوں
دو آبلے تو خار مغیلاں سے دور ہوں

گردش سے چشم یار کے آتشؔ عجب نہیں
جو جو عمل کہ گردش دوراں سے دور ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse