دل کھو گیا ہمارا کسی سے ملا کے ہاتھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کھو گیا ہمارا کسی سے ملا کے ہاتھ
by برجموہن دتاتریہ کیفی

دل کھو گیا ہمارا کسی سے ملا کے ہاتھ
ہو دسترس تو کاٹیے دزد حنا کے ہاتھ

اک تسمہ رہ گیا ہے رگ جاں کا لگا ہوا
جھوٹا پڑا ہے آہ کہاں ان کا جا کے ہاتھ

ہاتھوں پہ ہم کو ناگ کھلانے کی مشق ہے
چھوتے ہیں ہم جبھی ترے گیسو بڑھا کے ہاتھ

پھیلا لے پاؤں کھول کے دل اے شب فراق
بیٹھے ہیں ہم بھی زیست سے اپنی اٹھا کے ہاتھ

کیوں ہاتھ پاؤں میرے خوشی سے نہ بھول جائیں
انگلی چبھووے ہاتھ میں جب وہ ملا کے ہاتھ

وہ آڑے ہاتھوں لوں کہ اکڑ ساری بھول جائے
منہ کی نہ کھانا شیخ جی ہم سے ملا کے ہاتھ

سرسوں جمانی ہاتھوں پہ یوں سیکھ لے کوئی
دل سے ملا لیا ہے دل ان سے ملا کے ہاتھ

یہ بیکسی کے ہاتھوں ہوا ہے ہمارا حال
پیغام بھیجتے ہیں ہم ان کو صبا کے ہاتھ

کیفیؔ نہ نازکی پہ تم اس بت کی بھولنا
دیکھے نہیں ابھی کسی نازک ادا کے ہاتھ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse