Jump to content

دل کھوٹا ہے ہم کو اس سے راز عشق نہ کہنا تھا

From Wikisource
دل کھوٹا ہے ہم کو اس سے راز عشق نہ کہنا تھا
by شوق قدوائی
317646دل کھوٹا ہے ہم کو اس سے راز عشق نہ کہنا تھاشوق قدوائی

دل کھوٹا ہے ہم کو اس سے راز عشق نہ کہنا تھا
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے اتنا سمجھے رہنا تھا

کیوں ہنستے ہو میں جو برہنہ آج جنوں کے ہاتھوں ہوں
کچھ دن گزرے میں نے بھی بھی رنگ لباس اک پہنا تھا

نزع کے وقت آئے ہو تم اب پوچھ رہے ہو کیا مجھ سے
حالت میری سب کہہ گزری جو کچھ تم سے کہنا تھا

آ کے گیا وہ رویا کین یہ حرج ہوا نظارے میں
آنکھیں کچھ ناسور نہیں تھیں جن کو ہر دم بہنا تھا

ہمت ہارے جی دے بیٹھے سب لذت کھوئی اے شوقؔ
مرنے کی جلدی ہی کیا تھی عشق کا غم کچھ سہنا تھا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.