دل کو یکسوئی نے دی ترک تعلق کی صلاح

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کو یکسوئی نے دی ترک تعلق کی صلاح
by ساحر دہلوی

دل کو یکسوئی نے دی ترک تعلق کی صلاح
اے امید وصل جاناں کیا ہے اب تیری صلاح

جب جفا جو نے تغافل سے بھی کی قطع نظر
ہو رضائے یار پر شاکر یہ ہے دل کی صلاح

ہوش میں جلوہ دکھانے سے اگر ہے اس کو عار
ہے وداع ہوش کی ہر حال میں اپنی صلاح

نقد جاں دل دار کرتا ہے طلب میں کیا کروں
بندگی بے چارگی پر اب تو ہے میری صلاح

منزل عشق و فنا کرنی ہے طے سر تا بہ سر
شمع کے مانند جل بجھنے کی ہے میری صلاح

صاف کہتا ہے کہ تو نیکی کر اور دریا میں ڈال
دل مرا دیتا ہے مجھ کو آج نیکی کی صلاح

بے تمنائی میں ساحرؔ میں ہوں ہر دم میرے ساتھ
دور کر دل سے تمنا ہے یہ جاناں کی صلاح

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse