دل کو ہلاک جلوۂ جاناں بنائیے
Appearance
دل کو ہلاک جلوۂ جاناں بنائیے
اس بت کدے کو کعبۂ ایماں بنائیے
طوفان بن کے اٹھیے جہان خراب میں
ہستی کو اک شرارۂ رقصاں بنائیے
دوڑائیے وہ روح کہ ہر ذرہ جاگ اٹھے
اجڑے ہوئے وطن کو گلستاں بنائیے
پھر دیجئے نگاہ کو پیغام جستجو
منزل سے کیوں نظر کو گریزاں بنائیے
آخر تو ختم ہوں گی کہیں قید کی حدیں
یوسف کو آپ رونق زنداں بنائیے
پھر اپنے دل میں کیجئے پیدا کوئی تڑپ
پھر مشکل حیات کو آساں بنائیے
جوہرؔ اسیریوں کی کوئی انتہا بھی ہے
آزاد اک نظام پریشاں بنائیے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |