دل کو کیا ہو گیا خدا جانے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کو کیا ہو گیا خدا جانے
by داغ دہلوی

دل کو کیا ہو گیا خدا جانے
کیوں ہے ایسا اداس کیا جانے

اپنے غم میں بھی اس کو صرفہ ہے
نہ کھلا جانے وہ نہ کھا جانے

اس تجاہل کا کیا ٹھکانا ہے
جان کر جو نہ مدعا جانے

کہہ دیا میں نے راز دل اپنا
اس کو تم جانو یا خدا جانے

کیا غرض کیوں ادھر توجہ ہو
حال دل آپ کی بلا جانے

جانتے جانتے ہی جانے گا
مجھ میں کیا ہے ابھی وہ کیا جانے

کیا ہم اس بد گماں سے بات کریں
جو ستائش کو بھی گلہ جانے

تم نہ پاؤ گے سادہ دل مجھ سا
جو تغافل کو بھی حیا جانے

ہے عبث جرم عشق پر الزام
جب خطاوار بھی خطا جانے

نہیں کوتاہ دامن امید
آگے اب دست نارسا جانے

جو ہو اچھا ہزار اچھوں کا
واعظ اس بت کو تو برا جانے

کی مری قدر مثل شاہ دکن
کسی نواب نے نہ راجا نے

اس سے اٹھے گی کیا مصیبت عشق
ابتدا کو جو انتہا جانے

داغؔ سے کہہ دو اب نہ گھبراؤ
کام اپنا بتا ہوا جانے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse