دل کو کس صورت سے کیجے چشم دلبر سے جدا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کو کس صورت سے کیجے چشم دلبر سے جدا
by شاہ نصیر

دل کو کس صورت سے کیجے چشم دلبر سے جدا
شیشۂ مے کو نہیں رکھتے ہیں ساغر سے جدا

میں تو ہوں اے طالع برگشتہ دلبر سے جدا
اور پتھر آسیا کا ہو نہ پتھر سے جدا

اس کے بحر حسن میں مت چھوڑ اے دل تار زلف
غرق ہو جاتی ہے کشتی ہو کے لنگر سے جدا

عشق میں شیریں کے تو نے جان شیریں دی ہے آہ
نقش تیرا کوہ کن ہو کیوں کہ پتھر سے جدا

چشم یہ تجھ سے ہے یارب تا نہ ہو لیل و نہار
چشم اس پردہ نشیں کے رخنۂ در سے جدا

کندہ اس میرے نگین دل پہ تیرا نام ہے
اس کو اپنے خاتم دل کے نہ کر گھر سے جدا

اس کو کہتے ہیں محبت شیشۂ ساعت کو دیکھ
ایک کے ہوتا نہیں ہے دوسرا بر سے جدا

وہ ادھر خنداں ہے میں گریاں ادھر حیرت ہے یہ
برق چمکے ابر گرجے اور مینہ برسے جدا

صورت بادام توام روز و شب ہوتا نہیں
چشم دلبر کا تصور چشم کے گھر سے جدا

سوزن بے رشتہ آتی ہے کسی کو کب نظر
تو نہ ہو اے آہ دل اس جسم لاغر سے جدا

پردۂ مینا سے ساقی دخت رز نکلے ہے کیوں
آفتاب خاوری ہوتا ہے خاور سے جدا

اس کی مژگاں سے چھڑاؤں دل کو کس صورت سے میں
پنجۂ شاہیں نہیں ہوتا کبوتر سے جدا

تاب اس چمپا کلی کی یوں ہے تکمے کے تلے
جوں کرن چمکے ہے ہو کر مہر انور سے جدا

اشک چشم تر کو رہنے دوں تہ مژگاں نہ کیوں
طفل کو کرتے نہیں دامان مادر سے جدا

اس زمیں میں لکھ غزل اک اور پر معنی نصیرؔ
رنگ یعنی ہو نہیں سکتا گل تر سے جدا

اس غزل کو سن کے خاقانیؔ کرے وجد اے نصیرؔ
انوریؔ بھی سر کو اپنے پٹکے پتھر سے جدا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse