دل کو پیری میں محبت کا تری جوش آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کو پیری میں محبت کا تری جوش آیا  (1933) 
by منشی ٹھاکر پرساد طالب

دل کو پیری میں محبت کا تری جوش آیا
بے خودی شب کو رہی وقت سحر ہوش آیا

تیرے جلوے کا نظارہ نہ ہوا بار دگر
بے خودی کے ہیں یہ معنی کہ نہ پھر ہوش آیا

زہر گیسو نے مجھے مار ہی ڈالا تھا مگر
لب جاں بخش کے صدقہ میں مجھے ہوش آیا

ساقیا مے کدۂ دہر میں وہ مے کش ہوں
مرتے دم تک مجھے اپنا بھی نہ کچھ ہوش آیا

کس لئے جام‌ و صراحی میں ہے ساقی تاخیر
ابر پر شور پئے خاطر مے نوش آیا

دل کو پھر لالہ رخوں سے ہوئی الفت پیدا
عہد پیری میں جوانی کا مجھے جوش آیا

اس قدر شوق شہادت ہے مجھے اے قاتل
تیرے کوچے میں جو آیا تو کفن پوش آیا

جو دہر دہر سے وہ بار گنہ لے کے گیا
گو جب آیا تھا عدم سے تو سبک دوش آیا

خلعتیں زیر زمیں کون پنہا دیتا ہے
باغ عالم میں جو گل آیا قبا پوش آیا

واعظا کر سر منبر نہ مذمت مے کی
کچھ بنائے نہ بنے گی جو یہاں جوش آیا

حشر کے دن جو گنہ گاروں کی کثرت دیکھی
قلزم رحمت باری میں عجب جوش آیا

جس نے مے خانہ دنیا میں ذرا بھی پی لی
آ گئی موت پہ طالبؔ نہ اسے ہوش آیا

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse