دل کو مٹا کے داغ تمنا دیا مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کو مٹا کے داغ تمنا دیا مجھے
by جگر مراد آبادی

دل کو مٹا کے داغ تمنا دیا مجھے
اے عشق تیری خیر ہو یہ کیا دیا مجھے

محشر میں بات بھی نہ زباں سے نکل سکی
کیا جھک کے اس نگاہ نے سمجھا دیا مجھے

میں اور آرزوئے وصال پری رخاں
اس عشق سادہ لوح نے بہکا دیا مجھے

ہر بار یاس ہجر میں دل کی ہوئی شریک
ہر مرتبہ امید نے دھوکا دیا مجھے

اللہ رے تیغ عشق کی برہم مزاحیاں
میرے ہی خون شوق میں نہلا دیا مجھے

خوش ہوں کہ حسن یار نے خود اپنے ہاتھ سے
اک دل فریب داغ تمنا دیا مجھے

دنیا سے کھو چکا ہے مرا جوش انتظار
آواز پائے یار نے چونکا دیا مجھے

دعویٰ کیا تھا ضبط محبت کا اے جگرؔ
ظالم نے بات بات پہ تڑپا دیا مجھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse