دل کو لے کر ہم سے اب جاں بھی طلب کرتے ہیں آپ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کو لے کر ہم سے اب جاں بھی طلب کرتے ہیں آپ
by نظیر اکبر آبادی

دل کو لے کر ہم سے اب جاں بھی طلب کرتے ہیں آپ
لیجئے حاضر ہے پر یہ تو غضب کرتے ہیں آپ

مورد تقصیر گر ہوتے تو لازم تھی سزا
یہ جفا پھر کہئے ہم پر کس سبب کرتے ہیں آپ

کرتے ہو ابرو سے کشتہ رخ سے دیتے ہو جلا
حسن میں اعجاز کیا کیا روز و شب کرتے ہیں آپ

قیس سے جو تھا کیا در پردہ لیلیٰ نے سلوک
سو وہی اے مہرباں ہم سے بھی اب کرتے ہیں آپ

بے کلی ہوتی ہے حسرت سے دل صد چاک کو
اپنی زلف عنبریں کو شانہ جب کرتے ہیں آپ

ہم نے پوچھا پھر بھی اس کی جاں پھری سب جسم میں
نزع میں دوری سے جس کو جاں بلب کرتے ہیں آپ

ہنس کے فرمایا نظیرؔ اپنی دعائے لطف سے
یہ بھی ہو سکتا ہے کیا اس کا عجب کرتے ہیں آپ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse