دل کو صبر و قرار بھی نہ ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کو صبر و قرار بھی نہ ہوا
by کیفی کاکوروی

دل کو صبر و قرار بھی نہ ہوا
جبر پر اختیار بھی نہ ہوا

لالہ ہر چند باغ میں پھولا
گل رخوں میں شمار بھی نہ ہوا

مر مٹے فکر میں عروج کے ہم
خاک اونچا غبار بھی نہ ہوا

رہ گیا تیر یار پہلو میں
کیا ستم ہے کہ پار بھی نہ ہوا

خون سے میرے دامن قاتل
تختہ لالہ زار بھی نہ ہوا

مے سے مجھ کو خمار بھی نہ ہوا
نشہ کیسا اتار بھی نہ ہوا

اثر چشم زار بھی نہ ہوا
صاف ان کا غبار بھی نہ ہوا

ایک بوسے کو تو گنا سو بار
گالیوں کا شمار بھی نہ ہوا

ان کی رسوائیوں کا پاس رہا
میں کبھی اشک بار بھی نہ ہوا

سرو نے سرکشی سے کیا پایا
شجر میوہ دار بھی نہ ہوا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse