دل کو درد آشنا کیا تو نے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کو درد آشنا کیا تو نے
by الطاف حسین حالی

دل کو درد آشنا کیا تو نے
درد دل کو دوا کیا تو نے

طبع انساں کو دی سرشت وفا
خاک کو کیمیا کیا تو نے

وصل جاناں محال ٹھہرایا
قتل عاشق روا کیا تو نے

تھا نہ جز غم بساط عاشق میں
غم کو راحت فزا کیا تو نے

جان تھی اک وبال فرقت میں
شوق کو جاں گزا کیا تو نے

تھی محبت میں ننگ منت غیر
جذب دل کو رسا کیا تو نے

راہ زاہد کو جب کہیں نہ ملی
درمے خانہ وا کیا تو نے

قطع ہونے ہی جب لگا پیوند
غیر کو آشنا کیا تو نے

تھی جہاں کارواں کو دینی راہ
عشق کو رہنما کیا تو نے

ناؤ بھر کر جہاں ڈبونی تھی
عقل کو ناخدا کیا تو نے

بڑھ گئی جب پدر کو مہر پسر
اس کو اس سے جدا کیا تو نے

جب ہوا ملک و مال رہزن ہوش
بادشہ کو گدا کیا تو نے

جب ملی کام جاں کو لذت درد
درد کو بے دوا کیا تو نے

جب دیا راہرو کو ذوق طلب
سعی کو نارسا کیا تو نے

پردۂ چشم تھے حجاب بہت
حسن کو خود نما کیا تو نے

عشق کو تاب انتظار نہ تھی
غرفہ اک دل میں وا کیا تو نے

حرم آباد اور دیر خراب
جو کیا سب بجا کیا تو نے

سخت افسردہ طبع تھی احباب
ہم کو جادو نوا کیا تو نے

پھر جو دیکھا تو کچھ نہ تھا یا رب
کون پوچھے کہ کیا کیا تو نے

حالیؔ اٹھا ہلا کے محفل کو
آخر اپنا کہا کیا تو نے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse