دل کو تسکیں ہو گئی ہے سامنے آنے کے بعد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کو تسکیں ہو گئی ہے سامنے آنے کے بعد
by راجہ نوشاد علی خان

دل کو تسکیں ہو گئی ہے سامنے آنے کے بعد
جان جائے گی ہماری آپ کے جانے کے بعد

مجھ سے دیوانہ کو سمجھانا اسی کا کام ہے
خود سمجھ جائے گا ناصح مجھ کو سمجھانے کے بعد

تجھ سے پہلے مٹ چکے ہیں کیسے کیسے نامور
نام تیرا بھی نہ لے گا کوئی مر جانے کے بعد

میہماں ہوتے تھے جب وہ دل پہ بس رہتا نہ تھا
ایک دن آنے کے پہلے ایک دن جانے کے بعد

اٹھ گئے بالیں سے تم بیمار کا یہ حال تھا
آنکھ میں آنسو بھرے تھے ہوش میں آنے کے بعد

تجھ کو اے شیخ حرم کعبہ مبارک ہو ترا
دوسرا گھر ہم نہیں دیکھیں گے مے خانہ کے بعد

شرم سے گردن جھکا کر چٹکیاں لینے لگی
شوخیاں کرنے لگے پھر آپ شرمانے کے بعد

ہم کہا کرتے ہیں ان کے کوچہ میں ہر ایک سے
دفن کر دینا یہیں پر ہم کو مر جانے کے بعد

ظلم سے اپنے پشیمان آخرش ہونا پڑا
جھک گئیں ان کی نگاہیں لاش پر آنے کے بعد

ہو گئے سیراب پی کر خون دل اے عشق ہم
خوب آسودہ ہوئے لخت جگر کھانے کے بعد

مجھ کو مرنے کا نہیں غم رنج ہے اس بات کا
ظلم وہ کس پر کریں گے میرے مر جانے کے بعد

عشق میں افسردہ ہو کر دل کا ہوتا ہے وہ رنگ
پھول کا جو حال ہو جاتا ہے مرجھانے کے بعد

سر جھکا کر لاش پر آئے ہیں کس انداز سے
وہ دوا کرنے جو آئے بھی تو مر جانے کے بعد

راستے سے وہ پلٹ کر آ رہے ہیں کس لئے
کیا خیال آیا انہیں نوشادؔ گھر جانے کے بعد

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse