دل کو اسی سبب سے ہے اضطراب شاید

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کو اسی سبب سے ہے اضطراب شاید
by حفیظ جونپوری

دل کو اسی سبب سے ہے اضطراب شاید
قاصد پھرا ہے لے کر خط کا جواب شاید

آنکھیں چڑھی ہوئی ہیں باتیں ہیں بہکی بہکی
آئے ہو تم کہیں سے پی کر شراب شاید

کیا جانے کس ہوا میں اتنا ابھر رہا ہے
ہستی نہیں سمجھتا اپنی حباب شاید

مجھ پر جو وہ سحر سے اس درجہ مہرباں ہیں
شب کی دعا ہوئی ہے کچھ مستجاب شاید

بیمار ہوں بندھی ہے دھن رات دن سفر کی
غربت میں اپنی مٹی ہوگی خراب شاید

پچھلے سے وصل کی شب آثار صبح کے ہیں
نکلے گا رات ہی سے آج آفتاب شاید

آیا بہت دنوں پر زاہد جو میکدے میں
بھولی ہوئی تھی اس کو راہ ثواب شاید

برسات کی کمی سے کیا قدر گھٹ گئی ہے
ایسی کبھی بکی ہو ارزاں شراب شاید

اپنے دماغ میں تو اب یہ بسی ہوئی ہے
بہتر ترے پسینے سے ہو گلاب شاید

بزم عدو میں آ کر جس طرح ہم جلے ہیں
دوزخ میں ہو کسی پر ایسا عذاب شاید

اشکوں سے تر ہوئی تھی یوں رات سیج ان کی
یاد آ گیا تھا کوئی ہنگام‌ خواب شاید

اے شیخ تو ملا کر دیکھ ان سے عمر اپنی
حوروں کا ڈھل گیا ہو اب تو شباب شاید

توبہ حفیظؔ مے کا پڑ جائے جس کو چسکا
پھر اس سے مرتے دم تک چھوٹے شراب شاید

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse