دل کشی نام کو بھی عالم امکاں میں نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کشی نام کو بھی عالم امکاں میں نہیں
by چندر بھان کیفی دہلوی

دل کشی نام کو بھی عالم امکاں میں نہیں
اپنے مطلب کا کوئی پھول گلستاں میں نہیں

وعدۂ وصل پہ کھنچتا ہوا ہاں کا لہجہ
ایک انداز ہے کہنے کا ترے ہاں میں نہیں

آپ کہتے ہیں کہ تقدیر کی گردش میں رہے
مانتا ہوں کہ یہ دل گیسوئے پیچاں میں نہیں

بس کسی کا نہیں صیاد خطا کیا تیری
آب و دانہ مری قسمت کا گلستاں میں نہیں

خاک ہونے سے بنا چشم فلک کا سرمہ
خاکساری جو نہیں خاک بھی انساں میں نہیں

نقش توحید ہے ہر نقش جبین سجدہ
کہیں کعبے کا تو پتھر در جاناں میں نہیں

پہلے ہی لوٹ تھا پروانہ تری محفل پر
اب یہ سنتے ہیں کہ بلبل بھی گلستاں میں نہیں

پاک بازی کی طرف جب سے جھکے ہیں کیفیؔ
بادہ نوشی کا مزا محفل رنداں میں نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse