دل کشتۂ نظر ہے محروم گفتگو ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کشتۂ نظر ہے محروم گفتگو ہوں
by عزیز لکھنوی

دل کشتۂ نظر ہے محروم گفتگو ہوں
سمجھو مرے اشارے میں سرمہ در گلو ہوں

مدت سے کھو گیا ہوں سرگرم جستجو ہوں
اپنا ہی مدعا ہوں اپنی ہی آرزو ہوں

صورت سوال ہوں میں پوچھو نہ میرا مطلب
میں اپنے مدعا کی تصویر ہو بہ ہو ہوں

ہے دل میں جوش حسرت رکتے نہیں ہیں آنسو
رستی ہوئی صراحی ٹوٹا ہوا سبو ہوں

زخموں سے دل کا عالم کیا پوچھتے ہو کیا ہے
گلزار بے خزاں ہوں دنیائے رنگ و بو ہوں

جلوے حجاب افگن آنکھیں ہلاک حسرت
تو محو پردہ داری میں وقف جستجو ہوں

پامال یوں ہوا ہوں پنہاں ہے مجھ میں عالم
ایک مشت خاک ہو کر صحرائے آرزو ہوں

رخ سے کفن ہٹا دو کیا پوچھتے ہیں پوچھیں
پردے میں خامشی کے سرگرم گفتگو ہوں

کس سے عزیزؔ رکھوں امید دوستی کی
سرکش ہے نفس جب تک اپنا ہی میں عدو ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse