دل کس سے لگاؤں کہیں دلبر نہیں ملتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کس سے لگاؤں کہیں دلبر نہیں ملتا
by رند لکھنوی

دل کس سے لگاؤں کہیں دلبر نہیں ملتا
کیا ظلم سہوں کوئی ستم گر نہیں ملتا

خط لے کے گیا جو وہ کبوتر نہیں ملتا
کیا ذکر کبوتر کا ہے اک پر نہیں ملتا

زلفوں کی طرح عمر بسر ہو گئی اپنی
ہم خانہ بدوشوں کو کہیں گھر نہیں ملتا

کیا خاک مداوا کریں شوریدہ سری کا
سر پھوڑنے کو ڈھونڈھیں تو پتھر نہیں ملتا

گنجلک نہیں مٹتی جو طبیعت میں پڑی ہے
دل تجھ سے کسی طور سے دلبر نہیں ملتا

کیا کیجئے تعریف بنا گوش کی اس کے
آویزے کو جس کان کے گوہر نہیں ملتا

گم جب سے ہوا ہوں میں تری راہ طلب میں
جب ڈھونڈھتا ہوں آپ کو اکثر نہیں ملتا

کچھ طالب زر بت ہی نہیں غور سے دیکھو
حق یوں ہے کہ اللہ بھی بے زر نہیں ملتا

صورت نہیں ملتی تری صورت سے کسی کی
گہنے سے کسی کے ترا زیور نہیں ملتا

آرائشیں موقوف ہوئیں کس لئے اے جان
گوہر نہیں ملتا ہے کہ زر گر نہیں ملتا

ابرو کی محبت میں کسے زیست ہے منظور
مر جاؤں گلا کاٹ کے خنجر نہیں ملتا

رندان مے آشام نہیں جام کے پابند
ہم اوک سے پیتے ہیں جو ساغر نہیں ملتا

وحشت میں نکل جاؤں میں سرحد سے زمیں کی
اس گنبد گرداں کا ولے در نہیں ملتا

او برق تجلی ترے کشتے کی لحد پر
کیا لوح بنے طور کا پتھر نہیں ملتا

حاضر ہوں مجھے بستۂ فتراک فرس کر
گر صید کوئی ترک ستم گر نہیں ملتا

عاشق سے نہ کھینچ آپ کو اے بادشہ حسن
درویش سے کیا جھک کے تونگر نہیں ملتا

جو زخم کو سینے کے سیے ٹانکے جگر کو
ایسا کوئی استاد رفوگر نہیں ملتا

اے رندؔ لبالب ہو جو عرفان کی مے سے
ساغر وہ بجز ساقیٔ کوثر نہیں ملتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse