دل کسی مشتاق کا ٹھنڈا کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل کسی مشتاق کا ٹھنڈا کیا
by نسیم دہلوی

دل کسی مشتاق کا ٹھنڈا کیا
خوب کیا آپ نے اچھا کیا

آج حیا آنکھ کی کچھ اور ہے
چاہنے والا کوئی پیدا کیا

ہائے رے پیماں شکنی کے مزے
جب میں گیا وعدۂ فردا کیا

کچھ تو کسی نے انہیں سمجھا دیا
ہم جو گئے آج تو پردہ کیا

گو کہ نہ تھا میری طرف منہ مگر
ترچھی نگاہوں سے وہ دیکھا کیا

آہ کی تقصیر نہیں ہے مگر
بے اثری نے مجھے رسوا کیا

کہہ کے لے آتے ہیں تمہیں ہوشیار
یہ نہ کیا ہم نے تو پھر کیا کیا

موت کے صدقے کہ یہ کہتے تھے وہ
آج نہ اس نے کوئی پھیرا کیا

آپ کے احسان کی تعریف ہے
میں نے اگر شکوۂ اعدا کیا

نام میرا سنتے ہی شرما گئے
تم نے تو خود آپ کو رسوا کیا

قدر مری تم نے نہ کی ورنہ میں
کیا کہوں کیا آپ کو سمجھا کیا

میں نے تو اے جان جہاں جان دی
تم نے ادا حق وفا کیا کیا

پھر وہ نہائے عرق شرم میں
کس نے مرے عشق کا چرچا کیا

میں دل صد چاک کا کہتا تھا حال
شانہ عبث زلف سے الجھا کیا

اس کی نظر میں ہوا ہلکا نسیمؔ
مجھ سے مرے شوق نے کیا کیا کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse