دل کسو سے تو کیا لگانا تھا
Appearance
دل کسو سے تو کیا لگانا تھا
ہم کو منظور جی سے جانا تھا
آستاں تھا وہ آستانۂ عشق
کاٹ کر سر جہاں چڑھانا تھا
دید کو تیرے آئے تھے ہم یاں
زندگی کا فقط بہانہ تھا
نکلے وہ آہ اپنے دشمن جاں
ہم نے جن جن کو دوست جانا تھا
جس زمانہ میں ہم ہوئے تھے خلق
ہائے وو کیا برا زمانہ تھا
کیوں دیا اس پری کو دل تو نے
کیا تو اے منتظرؔ دوانہ تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |