دل ڈھونڈھتی ہے نگہ کسی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل ڈھونڈھتی ہے نگہ کسی کی
by ریاض خیرآبادی

دل ڈھونڈھتی ہے نگہ کسی کی
آئینے کی ہے نہ آرسی کی

مالک مرے میں نے مے کشی کی
لیکن یہ خطا کبھی کبھی کی

کیا شکل ہے وصل میں کسی کی
تصویر ہیں اپنی بے بسی کی

کھل جائے صبا کی پاک بازی
بو پھوٹے جو باغ میں کلی کی

کم بخت کبھی نہ خوش ہوا تو
اے غم تری ہر طرح خوشی کی

منہ ہم نے ہنسی ہنسی میں چوما
جو ہو گئی بات تھی ہنسی کی

تانا سا تنا ہے میکدے میں
پگڑی اچھلی ہے شیخ جی کی

ہم کو جو دیا تو اور کا دل
دل لے کے یہ اچھی دل لگی کی

یوں بھی تو چلا نہ کام اپنا
دشمن سے بھی ہم نے دوستی کی

پائے گئے جس میں دل کے اجزا
ہوگی وہ خاک اسی گلی کی

ایسی ہے کہ پی سکے گا واعظ
ہے تازہ کشید آج ہی کی

مے خلد میں ہوگی صورت حور
میخانے میں شکل ہے پری کی

گھر ہے نہ کہیں نشاں لحد کا
مٹی ہے خراب بے کسی کی

سچ یہ ہے کہ زندگی ہو یا موت
ہر چیز بری ہے مفلسی کی

اچھی ہے گزک سے، تلخ مے سے
ملتی رہے روز روکھی‌ پھیکی

کچھ کچھ ہے ریاضؔ میرؔ کا رنگ
کچھ شان ہے ہم میں مصحفیؔ کی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse