دل چرا کر نظر چرائی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل چرا کر نظر چرائی ہے
by داغ دہلوی

دل چرا کر نظر چرائی ہے
لٹ گئے لٹ گئے دہائی ہے

ایک دن مل کے پھر نہیں ملتے
کس قیامت کی یہ جدائی ہے

اے اثر کر نہ انتظار دعا
مانگنا سخت بے حیائی ہے

میں یہاں ہوں وہاں ہے دل میرا
نارسائی عجب رسائی ہے

اس طرح اہل ناز ناز کریں
بندگی ہے کہ یہ خدائی ہے

پانی پی پی کے توبہ کرتا ہوں
پارسائی سی پارسائی ہے

وعدہ کرنے کا اختیار رہا
بات کرنے میں کیا برائی ہے

کب نکلتا ہے اب جگر سے تیر
یہ بھی کیا تیری آشنائی ہے

داغؔ ان سے دماغ کرتے ہیں
نہیں معلوم کیا سمائی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse