دل چرا لے گئی دزدیدہ نظر دیکھ لیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل چرا لے گئی دزدیدہ نظر دیکھ لیا
by بیخود دہلوی

دل چرا لے گئی دزدیدہ نظر دیکھ لیا
ہم نہ کہتے تھے کہ اس چور نے گھر دیکھ لیا

بندہ پرور غم فرقت کا اثر دیکھ لیا
داغ دل دیکھ لیا داغ جگر دیکھ لیا

قد بھی کم عمر بھی کم مشق ستم اور بھی کم
کر چکے قتل مجھے جائیے گھر دیکھ لیا

شکوے کے ساتھ لگاوٹ بھی چلی جاتی ہے
جب کیا کچھ تو کنکھیوں سے ادھر دیکھ لیا

دادخواہوں پہ نئی حشر میں آفت آئی
صف کی صف لوٹ گئی اس نے جدھر دیکھ لیا

قتل عشاق پہ لو اور اٹھاؤ خنجر
جھک گئی بار نزاکت سے کمر دیکھ لیا

نہ چھٹا تم سے یہ مے خانے کا رستہ بیخودؔ
منہ چھپائے ہوئے جاتے ہو کدھر دیکھ لیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse