دل پر لگا رہی ہے وہ نیچی نگاہ چوٹ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل پر لگا رہی ہے وہ نیچی نگاہ چوٹ
by حفیظ جونپوری

دل پر لگا رہی ہے وہ نیچی نگاہ چوٹ
پھر چوٹ بھی وہ چوٹ جو ہے بے پناہ چوٹ

پھوڑا سر اس کے در سے کہ برسے جنوں میں سنگ
مجھ کو دلا رہی ہے عجب اشتباہ چوٹ

بجلی کا نام سنتے ہی آنکھیں جھپک گئیں
روکے گی میری آہ کی کیا یہ نگاہ چوٹ

لالچ اثر کا ہو نہ کہیں باعث ضرر
ٹکرا کے سر فلک سے نہ کھا جائے آہ چوٹ

منہ ہر دہان زخم کا سیتے ہیں اس لیے
مطلب ہے حشر میں بھی نہ ہو داد خواہ چوٹ

ملتی ہے چپ کی داد یہ مشہور بات ہے
جل جائے آسماں جو کرے ضبط آہ چوٹ

اٹھتے ہی دل میں ٹیس جگر میں ٹپک ہوئی
کرتی ہے درد ہجر سے گویا نباہ چوٹ

چوکھٹ پہ تیری شب کو پٹکتا ہے سر حفیظؔ
باور نہ ہو تو دیکھ جبین ہے گواہ چوٹ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse